Skip to content
Home » Blog » نیم کا درخت

نیم کا درخت

  • by

نیم کا درخت

شارق علی
ویلیوورسٹی

آپ نے تیز بارش کے تھم جانے کے بعد آسمان کے کنارے سے اُبھرتی قوس قزح ضرور دیکھی ہو گی۔
چنبیلی کے پھول چن کر انہیں ہتھیلی پر رکھ کر سونگھا ہو گا۔
کسی تیز گرتے جھرنے کے قریب آ کر اس کی تازگی اور نمی محسوس کی ہو گی۔
شاید پام کے پتوں سے چھپتے دکھتے چاند سے باتیں بھی کی ہوں۔
بس ایسی تھیں یانی آپا۔

نومبر کی نرم دھوپ بھی خاصی گرم تھی۔
گاڑی درخت کے سائے میں پارک ہو چکی تو میں نے ڈرائیور سے کہا، ’’میں تقریباً آدھے گھنٹے بعد یہیں آ کر تم سے ملتا ہوں۔‘‘

پھر میں گلی میں پیدل چلنے لگا۔
مجھے ایک گیارہ سالہ لڑکے اور اس کے دل میں چھپے راز سے ملنا ہے۔

کچھ فاصلہ طے کر کے میں ایک سلیقے سے نو آراستہ گھر کے عین سامنے آ کھڑا ہوا اور دیر تک اسے دیکھتا رہا۔
یہ یانی آپا کا آبائی گھر تھا۔
جدید انداز میں آراستہ، مگر بنیادی خاکہ وہی پرانا۔

وہ اب وہاں نہیں رہتیں۔

پھر میں نے اس گھر کے پڑوس میں واقع اپنا گھر دیکھا۔ پانچ دہائیوں پرانا گھر۔

غالباً کسی مقدمے کی زد میں آ کر یہ گھر اب سیل ہو چکا ہے۔
دیواروں پر سے پینٹ اکھڑ چکا تھا۔
سامنے کی کیاریوں میں نہ پھول تھے، نہ سرسبز و شاداب گھاس۔

خوشی اور حیرت اس بات پر ہوئی کہ میرا رازداں اور رفیق نیم کا درخت آج بھی کھڑا مسکرا رہا تھا۔
وہ پہلے سے زیادہ تنومند اور اونچا ہو چکا تھا۔ میرے بچپن کے خوابوں اور سوچوں کا محافظ۔

مجھے کتابیں پڑھنے کی لت لگ چکی تھی۔
فیروز سنز کی تمام بچوں کی کتابیں پڑھ چکتا تو ناصر کاظمی کے دیوان اور فیض کی دستِ صبا تک جا پہنچتا۔
کچھ سمجھ آتا، کچھ نہیں۔
مگر کم از کم پڑھنے سے دل کو عجیب سا سکون مل جاتا۔

گھر کے بیرونی لان میں موجود یہ نیم کا درخت چھ سات فٹ سیدھا اوپر اٹھنے کے بعد قدرتی طور پر کچھ یوں خم کھا گیا تھا کہ میرا گیارہ سالہ بدن اس کے مڑے ہوئے تنے میں نیم دراز حالت میں آرام سے ٹک جاتا۔
میں درخت چڑھنے میں اتنا تیز رفتار تھا کہ چند سیکنڈوں میں اپنی خفیہ نشست تک پہنچ جاتا۔

تنے کا یہ مڑا ہوا حصہ گھنے پتوں اور نمبولیوں سے ڈھکا رہتا تھا، اور کوئی مجھے آسانی سے دیکھ نہیں سکتا تھا۔

کبھی دیر تک غائب رہنے پر ڈھنڈیا مچتی۔
میرے بڑے بھائی لان اور گلی میں ادھر ادھر ڈھونڈتے پھرتے۔
میں چپ سادھے پتوں میں چھپا لیٹا رہتا۔
مناسب وقت پر نمودار ہوتا اور بلا جھجھک کوئی مناسب سا جھوٹ گھڑ لیتا۔

یہ درخت میرا کچھار تھا، میرا کریٹو ڈین۔
میں نے ٹارزن سیریز کی تمام قسطیں اسی خفیہ مقام پر بیٹھ کر پڑھیں۔

کتاب پڑھتے پڑھتے میں وقفے وقفے سے یانی آپا کے لان میں جھانک لیتا۔
ان کے کمرے کی ذرا سی نظر آنے والی کھڑکی کھلی ہے یا نہیں۔ اسی سے ان کی موجودگی یا غیر موجودگی کا اندازہ لگاتا۔

یانی آپا کی عمر اکیس بائیس برس کی ہو گی۔
میڈیکل کالج کی تھرڈ ایئر کی طالبہ۔
میری طرح کتابوں کی دیوانی۔
موسم اچھا ہو تو لان میں ایزی چیئر پر نیم دراز، ہاتھ میں کتاب، گھنٹوں دنیا سے بے خبر۔
جدید فیشن کا خوشرنگ، ڈھیلا ڈھالا لباس۔
سبز کانچ جیسی آنکھیں۔
سیمی رِم لیس چشمہ۔
اور چشمے کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی دائمی مسکراہٹ۔

ہماری دوستی کی بنیاد کتابوں کا عشق تھا۔
میں مہینے میں دو تین بار کہانیوں کی تلاش میں فیروز سنز جاتا، اور انگریزی کتابوں کی چھوٹی سی فہرست اور رقم، جو یانی آپا مجھے دیتیں، ہمیشہ میرے پاس ہوتی۔
مطلوبہ کتاب مل جاتی تو اپنی اہمیت کا احساس اور بڑھ جاتا۔

کبھی وہ بندوق والا بیکری سے اپنی پسندیدہ ڈارک چاکلیٹ “پیکسیز” منگواتیں۔
اضافی رقم دیتیں کہ میں اپنے لیے بھی کچھ خرید لوں۔
میں سائیکل چلانے کا ماہر تھا، بیکری تک جانے کی ذمہ داری خوب نبھاتا۔

چاکلیٹ لے کر آتا تو سامنے کے گیٹ سے داخل ہوتا اور لان میں سائیکل پارک کر دیتا۔
وہ مجھے اپنے کمرے سے ملحق سٹنگ روم کے آرام دہ صوفے پر بٹھاتیں۔
میرے لیے اپنے ہاتھوں سے مارمائٹ کا سینڈوچ بناتیں۔
قریب رکھے ٹرن ٹیبل پر دھیمی آواز میں فرینک سناترا کے گانے لگاتیں۔
پھر ہم آمنے سامنے بیٹھے باتیں کرتے۔ وہ ڈارک چاکلیٹ سے لطف اندوز ہوتیں اور میں سینڈوچ سے۔

رفاقت کی اس فضا میں میں اکثر انہیں نونہال میں پڑھے لطیفے سنا کر ہنساتا۔
ہنستیں تو چھوٹے تراشیدہ بال اور کانوں کی بالیاں تھرتھرانے لگتیں۔
ماحول مزید دلکش لگنے لگتا۔

ان کی سہیلیاں مجھے کچھ زیادہ پسند نہ تھیں۔
وہ آتیں تو یانی آپا گھنٹوں ان کے ساتھ مصروف رہتیں اور میں انتظار کرتا رہتا۔

یوں تو ان کے گھر والے بھی مجھ پر بے حد مہربان تھے۔
ان کے بڑے بھائی کو میری چرخی پکڑنے اور پیچ کے دوران ڈھیل دینے کی مہارت پسند تھی۔
چھوٹے بھائی سے کہانیوں کا تبادلہ چلتا رہتا۔
ان کے والد جنہیں سب اداسائیں کہتے تھے اکثر آبائی زمینوں کے دورے پر ہوتے۔ ان کی امی بہت کم گو تھیں مگر ہمیشہ شفقت بھری مسکراہٹ سے پیش آتیں۔

گویا میں ان سب کے لیے گھر کے فرد ہی کی طرح تھا۔

بغلی دروازے سے داخل ہوتا تو سب سے ملنا ملانا ہوتا۔ لیکن میری منزل اور ارادہ یانی اپا سے ملاقات ہوتی

ان کے بڑے بھائی کے تین سالہ بیٹے کی سالگرہ دھوم دھام سے منائی گئی۔
دن بھر بیرونی لان میں سٹیج اور پردے کے پیچھے فنکاروں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا۔ شام ڈھلے تماشہ شروع ہوا۔
محلے کے سب بچے شریک تھے۔
سامنے فرشی نشست بچوں کے لیے اور پیچھے کرسیاں بڑوں کے لیے۔
یانی آپا کی کرسی میرے بالکل پیچھے تھی۔

اسٹیج پر اچانک رنگوں کا طوفان اٹھا۔
تھر کے روایتی لباس میں ملبوس سجی سجای کٹھ پتلیاں ناچنے اور بولنے لگیں۔
کہانی تو یاد نہیں، مگر وہ رنگوں بھرا طوفان اور یانی آپا کی حسبِ موقع کھلکھلاہٹ یاد ہے۔

پھر پاپا کی ترقی اور تبادلے کے باعث ہم کراچی آ گئے۔
یانی آپا اور ان کے گھر والوں کی کبھی کبھار کوئی خبر مل جاتی۔

یانی آپا نے ڈاکٹری کی ڈگری کامیابی سے مکمل کی اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم کے لیے کینیڈا چلی گئیں۔

میں اب دونوں گھروں کے درمیان موجود صاف ستھری پیدل گلی سے گزر کر پچھلی سڑک تک پہنچ چکا ہوں۔
رخ موڑا اور کار کی سمت چلنے لگا تو
ڈرائیور نے مجھے دیکھ کر گاڑی اسٹارٹ کی۔

پانچ دہائیوں بعد اپنے اس پرانے محلے میں میں کچھ وقت گزار کر حیدرآباد سے کراچی اور پھر لندن روانہ ہو جاؤں گا۔

کینیڈا میں یانی آپا کی ریزیڈنسی کا آخری سال تھا۔
وہ ہسپتال سے گھر جاتے ہوئے ایک اندوہناک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئیں۔

میں نے اس خبر پر کبھی یقین نہیں کیا۔

قوس قزح کی دلکشی، چنبیلی کی مہک، جھرنوں کی تازگی اور دلکش چاندنی ٹریفک حادثے کا شکار کیونکر ہو سکتی ہے؟

بات صرف اتنی ہے کہ یانی آپا نے کینیڈا کے بجائے میری کہانیوں میں رہنا زیادہ پسند کیا۔
دادا جی اور میں کی سو مختصر کہانیوں میں آپ نے انہیں میرے ساتھ ضرور دیکھا ہو گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *