نرگس محمدی: جرات کی آواز
شارق علی
ویلیو ورسٹی
بارہ دسمبر 2025 کو ایران کی نوبیل انعام یافتہ انسانی حقوق کی کارکن نرگس محمدی کی ایک بار پھر گرفتاری نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ گرفتاری مشرقی شہر مشہد میں ایک یادگاری تقریب کے دوران ہوئی، اور عینی شاہدین کے مطابق اسے پُرتشدد طریقے سے انجام دیا گیا۔
نرگس محمدی وہ نام ہے جو اب صرف ایک فرد نہیں رہا، بلکہ ایران میں خواتین کے حقوق، آزادیٔ اظہار اور ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ 2023 میں امن کا نوبیل انعام ملنے کے باوجود، ان کی زندگی نگرانی، دھمکیوں، قید اور مسلسل دباؤ میں گزری ہے۔
حالیہ گرفتاری ایک ایسے وقت میں ہوئی جب وہ ایک وکیل کی مشکوک موت پر منعقدہ میموریل میں شریک تھیں۔ اس اجتماع میں لگنے والے نعرے ’’آمر مردہ باد‘‘ اور ’’ایران زندہ باد‘‘ اس بات کی یاد دہانی تھے کہ ایران میں اختلافِ رائے اب بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔
نوبیل کمیٹی اور عالمی انسانی حقوق تنظیموں نے اس گرفتاری پر سخت ردِعمل دیا ہے اور ایرانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ نرگس محمدی کی حفاظت، مقام اور فوری غیر مشروط رہائی کو یقینی بنایا جائے۔
نرگس محمدی خود لکھ چکی ہیں کہ ان کی زندگی
سرویلنس، سنسرشپ، گرفتاری اور تشدد کے مستقل خطرے کے باعث بکھر چکی ہے۔
یہ جملہ صرف ایک فرد کی کہانی نہیں، بلکہ ان ہزاروں آوازوں کی نمائندگی ہے جو خوف کے ماحول میں بھی خاموش ہونے سے انکار کرتی ہیں۔
گزشتہ ایک برس میں وہ حجاب زبردستی کے خلاف کھل کر سامنے آئیں، ملک بھر میں کارکنان سے ملیں، اور عالمی میڈیا میں ایرانی ریاستی جبر پر لکھتی رہیں۔
اسی جرات کی قیمت وہ بار بار قید کی صورت میں ادا کر رہی ہیں۔
نرگس محمدی کی یہ تازہ گرفتاری ہمیں ایک بنیادی سوال کی طرف لے جاتی ہے:
کیا سچ بولنا واقعی اتنا خطرناک ہو چکا ہے؟
ویلیو ورسٹی کے لیے نرگس محمدی کی کہانی صرف ایک سیاسی خبر نہیں، بلکہ یہ یاد دہانی ہے کہ
آزادی کبھی تحفے میں نہیں ملتی، اسے مانگنا پڑتا ہے اور اکثر اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔
