Skip to content
Home » Blog » میگھنا

میگھنا

  • by

میگھنا

ساتویں قسط

شارق علی
ویلیو ورسٹی

وین ہموار سڑک پر رواں دواں تھی۔ اردگرد پھیلے سرسبز و شاداب کھیتوں کے منظر کی یکسانیت خواب آور ثابت ہو رہی تھی۔ آپس کی بات چیت میں ایک وقفہ آیا اور ہم کچھ اونگھنے لگے۔ اچانک، کھیتوں اور آبادی کا سلسلہ ختم ہونا شروع ہوا۔ پہلے تو وین خود رو جنگلوں کے قریب سے گزری، پھر دریا کے کنارے کے خد و خال دھیرے دھیرے ابھرنے لگے۔ ہم سب، خصوصاً میں جو پہلی بار دریائے میگھنا دیکھنے جا رہا تھا، سنبھل کر باہر کا منظر دیکھنے لگا۔

اب کھیتوں کی جگہ جنگلی جھاڑیوں نے لے لی تھی۔ یہ جھاڑیاں جیسے روایت سے باغی سوچ کی علامت تھیں۔ مچھیروں کی جھونپڑیاں، مرمت ہوتی کشتیاں اور جال بھی نظر آنے لگے۔ پھر ہم ایک وسیع پل پر پہنچے اور ایک عظیم دریا کی کشادگی ہمارے سامنے تھی۔ دریائے میگھنا کی مترنم لہروں نے مجھے مسحور کر دیا۔

میگھنا، بنگلہ دیش کے دریاؤں میں ایک شاندار دریا ہے جو خلیج بنگال میں اپنا سفر ختم کرتا ہے۔ بھولا کے مقام پر اس کا پاٹ بارہ کلومیٹر چوڑا ہو جاتا ہے اور یہ دنیا کے سب سے بڑے گنگا ڈیلٹا کی تشکیل کرتا ہے۔ جب میں نے دریا کے حسن کی تعریف کی، تو پروفیسر مشرقی مسکراتے ہوئے بولے: “شاید سارے دلربا سنگدل بھی ہوتے ہیں، کم از کم میگھنا پر تو یہ بات صادق آتی ہے۔”

بدقسمتی سے، یہ دلکش دریا ہمارے ملک میں ڈوبنے سے ہونے والی ہلاکتوں کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ پروفیسر مشرقی نے ہمیں اس حوالے سے عالمی تحقیق کے بارے میں بتایا، جس کے تحت یہاں کے چھوٹے دیہات میں بچوں کو تیراکی سکھائی گئی تھی۔ یہ ثابت ہوا کہ اس عملی تعلیم کی بدولت ڈوبنے سے ہونے والی ہلاکتوں میں نمایاں کمی آئی۔

دریائے میگھنا کو الوداع کہنے کے بعد، ہم کھانے کے وقفے کے لیے ایک بڑے ہوٹل کے سامنے پہنچے۔ یہ ہوٹل بنگلہ دیش کے معیار کے مطابق شاندار تھا، جبکہ کراچی کے حساب سے درمیانے درجے کا۔ ہم سیڑھیوں سے اوپر جا کر پہلی منزل پر واقع مین ڈائننگ ہال میں داخل ہوئے، جہاں بیروں نے فوراً ہمارے لیے میزوں کا انتظام شروع کر دیا۔ کھانے کا آرڈر دینے میں منیرہ، مشرقی اور روتھ پیش پیش تھے۔

میں اپنی نشست پر بیٹھ کر ہال کی گہما گہمی کا جائزہ لینے لگا۔ ہر ملک کی انفرادیت اس کے لینڈسکیپ، لباس، بول چال اور رویوں سے جھلکتی ہے۔ یہاں کے کھانوں میں بھی بنگلہ دیش کی سادگی اور کفایت شعاری نمایاں تھی۔ اردگرد کی میزوں پر فیملیز کھانے اور گفتگو میں مصروف تھیں، اور ان کے درمیان چھوٹے بڑے کا احترام نمایاں تھا۔

بنگلہ دیش میں قیام کے دوران، میں نے زیادہ تر بنگالی خاندانوں میں عاجزی، سادگی اور عملی رویے دیکھے۔ غیر ضروری دکھاوے اور ہٹ دھرمی کا سامنا کم ہی ہوا، جو کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اکثر نظر آتے ہیں۔

کھانا چنا گیا تو مچھلی، سبزی، دال اور چاول وافر مقدار میں تھے، لیکن گاے کا قورمہ چھوٹی چھوٹی پلیٹوں میں تھا۔ شاید یہاں سادگی اور کفایت شعاری معمول کا حصہ تھی، لیکن مجھے یہ کچھ عجیب لگا۔ البتہ، میں نے خاموشی اختیار کی۔ شنکر نے کھانے کے دوران دلچسپ بات کہی کہ کسی بھی ملک کے کھانوں میں اس کا جغرافیہ جھلکتا ہے۔ بنگلہ دیش دریاؤں اور سیراب کھیتوں کا ملک ہے، اس لیے مچھلی اور چاول یہاں کی پسندیدہ غذا ہیں۔ ان کے ساتھ دالیں اور سبزیاں اس غذا کو مزید صحت مند بنا دیتی ہیں۔۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *