Skip to content
Home » Blog » مٹے اور مٹھی، آسٹریا کہانی، دوسری قسط

مٹے اور مٹھی، آسٹریا کہانی، دوسری قسط

  • by

دوسری قسط

شارق علی
ویلیو ورسٹی

ویانا انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی کشادگی اور منظم ماحول نے ہمیں خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا۔ امیگریشن کا مرحلہ دوستانہ ماحول میں اور تیزی سے طے ہوا۔ یہ ایئرپورٹ لندن کے ایئرپورٹس کی نسبت زیادہ پرسکون لگا۔ گہما گہمی بہت کم تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ پورے آسٹریا کی آبادی صرف نوے لاکھ کے لگ بھگ ہے، یعنی کراچی شہر کی نصف آبادی سے بھی کم۔ ایئرپورٹ پر موجود سہولیات کا معیار بہت اعلیٰ تھا۔ یہ ایئرپورٹ دنیا بھر میں کم ترین یعنی پچیس منٹ کے کنیکشن ٹائم کے ساتھ اپنی تیز ترین خدمات کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ فیملیز اور معذور مسافروں کے لیے خصوصی سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ اس کے جدید لاؤنجز دنیا کے بہترین لاؤنجز میں شمار کیے جاتے ہیں۔ عمارت کے مختلف حصوں کو آسٹریا کے مشہور مصوروں، گسٹاو کلیمٹ اور ایگون شیلے کے فن پاروں سے سجایا گیا ہے، جو ہر جانب ثقافتی خوشبو بکھیرتے نظر آتے ہیں۔

ویانا کے مشہور مصور گسٹاو کلیمٹ اپنی متنازعہ اور جذباتی پینٹنگز کے لیے معروف ہیں۔ ان کی سب سے مشہور پینٹنگ “دی کِس” (The Kiss) ہے، جو رومانویت اور شدتِ جذبات کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ویانا میں ان کا میوزیم “گسٹاو کلیمٹ میوزیم” ان کے بیسویں صدی کے شاہکاروں سے مزین ہے۔

ویانا فنونِ لطیفہ میں ایک منفرد اسکول “ویانا اسکول آف پینٹنگ” سے پہچانا جاتا ہے۔ یہاں مصوروں نے معاشرتی و ثقافتی تبدیلیوں کو تخلیقی انداز میں پیش کیا۔ ان مصوروں میں ایگنر، شین ولف اور شٹائنر شامل ہیں۔ ویانا کا ایک اور اہم مصور فرینز وِیلز تھا جس نے ایکسپریشنزم کی تحریک کو فروغ دیا۔ اس کے کام میں جذبات کی شدت، رنگوں کی گرمی، اور معاشرتی مسائل کی عکاسی نظر آتی ہے۔

امیگریشن اور واش روم سے فارغ ہو کر اگلا مرحلہ ہفتے بھر کی سیر کے لیے ٹرین کے ٹکٹ کا انتظام تھا۔ ایئرپورٹ ویانا سٹی سے تقریباً اٹھارہ میل دور ہے۔ ہم سینٹرل ٹرین آفس میں پہنچے اور پورے ہفتے کے لیے پاس بنانے کی درخواست کی۔ وہاں موجود اہلکار نے دوستانہ انداز میں مشورہ دیا کہ بہتر یہ ہوگا کہ ہم اس سے سٹی سینٹر تک جانے کے لیے ٹرین کا ٹکٹ خرید لیں اور ہفتہ بھر شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے کچھ ہی دور واقع ایک پرائیویٹ ٹرین اسٹیشن کے دفتر سے ہفتے بھر کا ٹکٹ بنوائیں۔ ہم نے اس مشورے پر عمل کیا۔ قریبی موجود پرائیویٹ کمپنی کے دفتر نے بہت مناسب قیمت میں پورے ہفتے کا ٹرین پاس بنا دیا۔ یہ صرف سٹی سینٹر میں بس ٹرین اور ٹرام، یعنی تمام سہولیات کے لیے کارآمد تھا۔ اس ساری بھاگ دوڑ کے دوران ہلکے سامان کے ساتھ سفر کی افادیت، یعنی صرف بیک پیک اور ایک کیری بیگ کی عقلمندی پر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو شاباش دی۔ پھر ہم ایئرپورٹ سے سٹی سینٹر پہنچنے کے لیے ٹرین میں سوار ہوئے۔ کوئی آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم مٹے نام کے اسٹیشن پر اترے۔ یہاں سے ہوٹل پہنچنے کے لیے ہمیں یو فور یا گرین لائن انڈر گراؤنڈ ٹرین پکڑنی تھی۔

مٹے ویانا کے مرکزی شہر کی ہلچل سے بے نیاز ایک چھوٹا سا زیرِ زمین ریلوے کا اسٹیشن ہے۔ اس کا جدید ڈیزائن صاف اور سادہ خطوط کے حسن کا مظہر تھا۔ پلیٹ فارم نرم پیلی اور سفید روشنی کے امتزاج سے خوش باش تھا۔ مسافر ہموار، پالش شدہ فرش پر چلتے اور ٹرین کا انتظار کرتے نظر آتے۔ اسٹیشن اگرچہ چھوٹا، لیکن مؤثر انداز میں کام کرتا نظر آ رہا تھا۔ مسافروں کے لیے آسان اور واضح ہدایات موجود تھیں۔ گرین لائن کے آنے میں چند منٹ باقی تھے۔ نہ جانے کیوں مجھے سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر مٹھی کا خیال آیا۔ شاید نام کی مناسبت سے۔ سندھ کا ایک غیر معروف شہر جس کی گلیاں مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی خوشبو سے معطر ہیں، جہاں ہندو اور مسلمان گھروں کی دیواریں آپس میں جڑی ہوئی ہیں، جہاں دونوں ثقافتیں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملا کر دکھ سکھ میں پرجوش انداز سے شرکت کرتی ہیں۔ کاش اس چھوٹے سے شہر کی یہ روشنی اور خوشبو پورے پاکستان میں پھیل سکے۔ محبت اور اخوت کثیف اور بوجھل مذہبی شدت پسندی کو شکست دے سکے۔۔۔
جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *