موئن جو دڑو کی مہر: فطرت پر قابو کا استعارہ
✍️ شارق علی
ویلیوورسٹی
وادیٔ سندھ کی تہذیب صرف اینٹوں کے بنے شہر نہیں، بلکہ انسانی تخیل کے وہ نقوش بھی ہیں جو پانچ ہزار سال بعد بھی حیران کر دیتے ہیں۔ موئن جو دڑو سے ملی ایک مہر پر ایک انسانی پیکر دکھایا گیا ہے جو اپنے ننگے ہاتھوں سے دو چیتوں کو قابو کر رہا ہے۔ یہ منظر بیک وقت ہیبت ناک بھی ہے اور علامتی بھی۔
آثارِ قدیمہ کے ماہر مارک کینوئیر کے مطابق، اس منظر میں طاقت اور فطرت پر تسلط کا وہی جذبہ جھلکتا ہے جو میسوپوٹیمیا کی تہذیب میں گیلگمش کے قصوں میں ملتا ہے۔ وہاں ہیرو دو شیروں کو دبوچتا ہے، یہاں چیتے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وادیٔ سندھ کی مہروں میں یہ کردار کبھی واضح مرد دکھائی دیتا ہے اور کبھی اتنا مبہم کہ مؤنث بھی ہو سکتا ہے ۔ گویا یہ “ہیرو” یا “ہیروئن” دونوں ہی ہو سکتے ہیں۔
یہ تصور شاید کسی دیوی یا محافظ قوت کی علامت ہو، جو جنگلی فطرت پر انسانی نظم و ضبط کی علامت بن گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ خیال میسوپوٹیمیا سے نقل نہیں کیا گیا، بلکہ دونوں تہذیبوں میں اس نے غالباً الگ الگ جنم لیا۔ جیسے انسان ہمیشہ سے فطرت پر قابو پانے کے خواب دیکھتا آیا ہو۔
یہ مہر صرف ایک قدیم تصویری نشان نہیں، بلکہ اس دور کے انسان کے اندر چھپے اُس سوال کی گواہی ہے جو آج بھی باقی ہے: کیا ہم فطرت پر قابو پا سکے ہیں یا اج بھی اُس کے سامنے بے بس ہیں؟ 🌾
