Skip to content
Home » Blog » مرو: ترکمانستان کا گمشدہ شہر

مرو: ترکمانستان کا گمشدہ شہر

  • by

مرو: ترکمانستان کا گمشدہ شہر

شاہراہِ ریشم کی بھولی بسری کہانی

شارق علی
ویلیوورسٹی

یہ ایک ایسے شہر کی کہانی ہے جو چار ہزار سال تک آباد رہا، اور صرف پچھلے دو سو برسوں میں اجڑ چکا ہے۔ صدیوں تک مختلف قومیں یہاں سکونت پذیر رہیں، تجارت کرتی رہیں، اور فنِ تعمیر کے حیرت انگیز نمونے تخلیق کرتی رہیں۔ یہ شہر ہے مرو (Merv) — انسانی تاریخ کا ایک حیرت انگیز اور تقریباً فراموش شدہ ورثہ، جو آج کے ترکمانستان میں شہر ماری کے قریب واقع ہے۔ ایک زمانے میں یہ قدیم دنیا کا چمکتا ہوا نگینہ تصور کیا جاتا تھا۔

مرو محض ایک عام شہر نہ تھا، بلکہ علم، ثقافت اور تجارت کا ایک بین الاقوامی مرکز تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس کا شاہراہِ ریشم (Silk Road) پر واقع ہونا تھا — وہ عظیم تجارتی راستہ جو مشرق کو مغرب سے جوڑتا تھا۔ یہاں سے گزرنے والے قافلوں میں ریشم، مصالحے، قیمتی پتھر اور دیگر تجارتی سامان تو ہوتا ہی تھا، لیکن ان کے ساتھ ملک ملک سے آئے مسافروں کی زبانوں، تہذیبوں اور کہانیوں کا بھی تبادلہ ہوتا تھا۔ یہی گوناگوں اثرات مرو کو تہذیبوں کا سنگم بنا دیتے تھے۔

صدیوں تک مرو مختلف عظیم سلطنتوں کے زیرِ اثر رہا — ہخامنشی ایران، سکندرِ اعظم کے مقدونی یونانی، اور سلیوکی حکمرانوں نے یہاں حکومت کی۔ ہر دور نے اپنے نقوش چھوڑے: شاندار عمارتیں، سرسبز باغات، کتب خانے، اور سائنسی و ادبی مراکز قائم ہوئے۔ عباسی دور میں بھی مرو کو خاص اہمیت حاصل رہی، جب یہ خلافت کا ایک علمی و ثقافتی مرکز بن چکا تھا، جہاں معروف مسلم اسکالرز نے قیام کیا، جیسے کہ مؤرخ یعقوبی اور سائنس دان عمر خیام۔

آج بھی مرو کے آثار میں سب سے زیادہ حیران کن قیز قلعہ (Great Kyz Kala) ہے — ایک پراسرار مٹی سے بنا ہوا قلعہ، جس کی ضخیم دیواریں آج بھی قائم ہیں۔ ان دیواروں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اب بھی پرانے وقتوں کے بادشاہوں، سپاہیوں اور دانشوروں کی سرگوشیوں کو محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ اس قلعے کی تعمیر میں جو تکنیک استعمال کی گئی ہے، وہ دنیا کے کسی اور خطے میں نظر نہیں آتی، اور یہی وجہ ہے کہ یہ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

مرو کی داستان اٹھارہویں صدی تک زندہ و تابندہ رہی۔ پھر تاریخ کی گرد نے اسے ڈھانپ لیا، اور یہ شہر خاموشی کے ساتھ گمنامی میں ڈوب گیا۔ آج اس کے کھنڈر ایک ادھوری کہانی کی مانند مسافروں کو ماضی میں جھانکنے کی دعوت دیتے ہیں۔

تو جب بھی آپ شاہراہِ ریشم کے بارے میں سوچیں، تو صرف مصالحہ جات سے لدے اونٹوں کے قافلوں کو چشمِ تصور میں نہ لائیں، بلکہ ان قافلوں کے ہمراہ سفر کرتے ہوئے مسافروں، ان کی زبانوں، تہذیبوں، اور ان میں گندھی ہوئی کہانیوں کو بھی یاد کریں۔ مرو جیسے عظیم الشان شہروں کو یاد کریں، جو انسانی تہذیب کے مشترکہ ورثے کی شاندار مثال تھے — اور جو آج بھی ہمارے لیے ماضی کا دروازہ کھولے کھڑے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *