مرزا رفیع سودا: جراتمند کلاسیکی آواز
تحقیق و تدوین:
شارق علی
ویلیوورسٹی
جب ہم اردو شاعری کے ابتدائی کلاسیکی ستونوں پر نظر ڈالتے ہیں، تو مرزا رفیع سودا کا نام اپنے دور کے سماجی ماحول میں ایک جراتمند اور منفرد آواز کی صورت میں ذہن میں ابھرتا ہے۔
“عمامے کو اتار کر پڑھیو نماز شیخ
سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا”
سودا نہ صرف اپنی بے باک شاعری بلکہ اپنی تخیلاتی بلند پروازی، شاندار قصائد، اور طنزیہ و ہجویہ شاعری کے لیے بھی معروف ہیں۔ ان کی شاعری اردو زبان و ادب کا وہ باب ہے جہاں انفرادی جذبات و کیفیات کے اظہار کے ساتھ ساتھ سماجی تبصرے کا بھی ایک منفرد رنگ جھلکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے تاریخ کے دھارے کو قلم کی نوک سے نہ صرف بیان کیا، بلکہ بعض مواقع پر اس کے رخ کو بدلنے کی خواہش بھی ظاہر کی۔
ابتدائی زندگی اور ادبی سفر
مرزا محمد رفیع سودا 1713ء میں دہلی کی علمی و ثقافتی فضا میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں فارسی کو علمی برتری حاصل تھی، اور زیادہ تر شاعری بھی فارسی میں کی جاتی تھی۔ ابتدا میں سودا نے بھی فارسی میں طبع آزمائی کی، مگر خان آرزو کے مشورے پر اردو کو اپنی شاعری کا ذریعہ بنایا۔ یوں اردو شاعری کو ایک ایسا گوہرِ نایاب ملا جس نے زبان کے حسن میں چار چاند لگا دیے۔
سودا نے اپنی شاعری کے ابتدائی دن دہلی میں بسر کیے، لیکن وقت کے سیاسی اتار چڑھاؤ نے انہیں لکھنؤ ہجرت پر مجبور کر دیا۔ نواب آصف الدولہ کے دربار میں انہیں بے حد عزت و احترام حاصل ہوا اور وہ “ملک الشعراء” کے لقب سے نوازے گئے۔ یہی وہ دور تھا جب سودا کی شاعری نے عروج حاصل کیا اور انہوں نے اپنی ہجویہ اور قصیدہ گوئی سے اردو شاعری کو ایک نئی جہت دی۔
شاعری کی خصوصیات
سودا کی شاعری کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ان کے کلام میں طنز و مزاح، سوز و گداز، زبان و محاورے کا بھرپور استعمال، اور تاریخی و سیاسی حالات پر تبصرہ سبھی کچھ موجود ہے۔
ان کے قصائد اردو کے اولین شاہکاروں میں شمار ہوتے ہیں، جن میں انہوں نے بادشاہوں، امیروں اور وزیروں کی مدح سرائی کی، لیکن جب وقت نے کروٹ لی تو یہی قلم بے خوفی سے حاکموں اور معاشرتی برائیوں کے خلاف برسرِ پیکار ہو گیا۔
ہجویہ شاعری میں سودا کو یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ انہوں نے اپنے طنز و مزاح سے معاشرے کی برائیوں اور منافقتوں کو نشانہ بنایا، جس کے باعث بعض اوقات درباری ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ دہلی سے لکھنؤ ہجرت بھی اسی کا نتیجہ تھی، لیکن سودا نے کبھی بھی اپنی بے باک روش ترک نہ کی۔ ان کے کلام میں بغاوت، جرات اور حقیقت پسندی کی ایک شاندار جھلک نظر آتی ہے۔
قصائد اور غزلوں کا شہنشاہ
سودا کے قصائد اردو شاعری میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جوش و خروش، زوردار بیانیہ، اور تخیل کی بلندی نمایاں نظر آتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے قصائد آج بھی مثال کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔
سودا نے غزلیں بھی کہیں، اور ان کی غزلوں میں سادگی اور شیرینی کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔
نمونہ کلام
“جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے”
“فکرِ معاش، عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے”
“نہ کر سودا تو شکوہ ہم سے دل کی بے قراری کا
محبت کس کو دیتی ہے میاں آرام دنیا میں”
“یہ تو نہیں کہتا ہوں کہ سچ مچ کرو انصاف
جھوٹی بھی تسلی ہو تو جیتا ہی رہوں میں”
“وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں”
“گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی”
“دل کے ٹکڑوں کو بغل گیر لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں”
“نہ جیا تیری چشم کا مارا
نہ تری زلف کا بندھا چھوٹا”
“کہیو صبا سلام ہمارا بہار سے
ہم تو چمن کو چھوڑ کے سوئے قفس چلے”
“عشق سے تو نہیں ہوں میں واقف
دل کو شعلہ سا کچھ لپٹتا ہے”
“گر ہو شراب و خلوت و محبوب خوب رو
زاہد قسم ہے تجھ کو جو تو ہو تو کیا کرے”
“گر تجھ میں ہے وفا تو جفاکار کون ہے
دل دار تو ہوا تو دل آزار کون ہے”
یہ اشعار نہ صرف سودا کی شاعری کے حسن اور گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ انہوں نے عشق، زندگی اور سماجی معاملات کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا۔
سودا کا ادبی ورثہ
کلیاتِ سودا اردو شاعری کا ایک عظیم خزانہ ہے جس میں قصائد، غزلیں، ہجویات اور سلام شامل ہیں۔ سودا کے کلام میں زبان و بیان کی شوکت، تخیل کی بلندی، اور طنز و مزاح کا ایک منفرد امتزاج ملتا ہے۔
انہوں نے جس انداز میں اپنے وقت کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل پر قلم اٹھایا، وہ آج بھی اردو شاعری میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
آخری ایام اور یادگار شخصیت
سودا نے اپنی زندگی کے آخری ایام لکھنؤ میں گزارے، جہاں وہ نواب شجاع الدولہ اور نواب آصف الدولہ کے دربار سے وابستہ رہے۔ لیکن 1781ء میں یہ عظیم شاعر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
ان کی شاعری آج بھی اردو زبان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔
اختتامیہ
مرزا رفیع سودا کی شاعری اردو کے لیے وہ بنیاد تھی جس نے بعد میں آنے والے شاعروں کے لیے راستہ ہموار کیا۔ وہ محض شاعر نہیں بلکہ ایک انقلابی ذہن رکھنے والے ادیب بھی تھے، جنہوں نے الفاظ کی مدد سے اپنی سوچ کو ایک بلند مقام عطا کیا۔
آج بھی جب اردو شاعری کے محسنوں کا ذکر ہوتا ہے، تو سودا کا نام اعلیٰ کلاسیکی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں سچائی، جرات، اور تخیل کا امتزاج ہے، جو ہر دور میں اردو ادب کو نئی جلا بخشتا رہے گا۔