محترمہ ادا جعفری صاحبہ کی کتاب ” جو رہی سو بے خبری رہی”
چند تاثرات
(دو ستمبر دو ہزار تیئیس بروز ہفتہ لندن میں منعقدہ جشن ادا جعفری کی تقریب میں کی گئی مختصر گفتگو سے متعلق تحریر)
شارق علی
میں نے اس کتاب کا مطالعہ چند سال پہلے زاتی پسند کے ماتحت اور بہت دلچسپی سے کیا تھا۔ یہ کتاب میرے لیے محترمہ ادا جعفری صاحبہ کی شخصیت ، ادبی ذمان و مکان اور ان کے دور کے معاشرتی رویوں سے بھرپور تعارف کا سبب بنی تھی ۔ میں نے اسے بہت انہماک اور دلچسپی سے پڑھا تھا اور دانشمندی کے بہت سے پہلو آشکار ہوے تھے ۔ جب حال ہی میں مجھے اس کتاب پر گفتگو کرنے کا اعزاز بخشا گیا تو میں نے اسے ایک بار پھر پڑھا. جن پہلووں نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا یہ تحریر ان ذاتی تاثرات پر مشتمل ہے ۔
پہلی محبت
اس کتاب کے حوالے سے جو پہلا تاثر پڑھنے والے کے ذہن میں ابھرتا ہے یا شاعرانہ زبان میں یوں کہیے کے اس گھرکے آنگن میں داخل ہوتے ہی جس مہک سے پڑھنے والے کا پہلے پہل ملنا ہوتا ہے وہ ہے محبت کی خوشبو. کتابوں سے، لفظوں سے، سلیقہ اظہار سے اور زندگی سے محبت. بلکہ سب سے بڑھ کر انسانیت سے محبت۔ بیشتر کتاب دوست قارئین میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ کتابوں سے محبت کا اغاز عمومآ بہت کم عمری میں ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب آپ تنہا اور اداس ہوں . ادا جعفری صاحبہ کی کتابوں سے پہلی محبت کا اغاز بھی ان کی نانا کی حویلی کے برامدے میں دستیاب پیلے صفحات والی چند کتابوں کے ڈھیر سے ہوا تھا ۔ وہ چند بکھری ہوئی اردو ، فارسی اور انگریزی کی کتابیں اس بچی کے لئے خفیہ گھریلو لائبریری کی حیثیت اختیار کر گئی تھیں۔ وہ بچی جو کم عمری میں اپنے والد کے انتقال کے دکھ سے شرابور تھی۔ جسے محبت، دوستی اور رفاقت کی تلاش تھی. اسے یہ پہلی محبت کتابوں کی قربت میں میسر ائی. اس کم عمر بچی نے اس راز کو اپنے گھر والوں سے بھی چھپا کر رکھا۔ اس خوف سے کہ کہیں اس لائبریری سے استفادہ کرنے کی منادی نہ ہو جاے۔ برامدے میں رکھی یہ چند کتابیں ہی اس کا پہلا سکول تھیں۔ یہاں اس نے لفظوں سے دوستی کی اور شاعری کے اغاز کے بنیادی رموز سیکھے۔ ذاتی کوشش اور مطالعے سے یہ استعداد بڑھتی چلی گئی۔ گھر پر آ کر پڑھانے والے استادوں کی مدد۔ مہرباں ماں کی حمایت اور نانا کی ہمت افزائی نے اس بچی کو اس قابل بنایا کہ وہ قابل اشاعت نظمیں لکھنے لگی۔ اپنی مہربان ماں کو چند اشعار سنا کر اس نے انہیں شاعری کے راز میں شریک کیا تو ماں کی انکھیں مسرت سے دمک اٹھیں۔ انہی کی محبت اور حمایت نے اسے شاعری کرنے کی ہمت اور کتابوں اور رسائل میں چھپنے کی سہولت فراہم کی۔ مہربان ماں کے ساتھ ساتھ اسے اپنے علم دوست نانا کی حمایت بھی حاصل رہی۔ وہ ایک دن اس سے ایک مشکل لفظ تپخال کا مطلب پوچھتے ہیں. جس کے معنی وہ فرفر بتا دیتی ہے۔ نانا خوش ہو کر انعام دیتے ہیں اور وہ لغات کشوری کی ایک جلد خریدنے کی دیرینہ آرزو کو پورا کرتی ہے۔
بازگشت
ادا جعفری صاحبہ کی لکھی گئی نثر ایک شاعرہ کی نثر ہے۔ پڑھتے ہوے جابجا لمحہ موجود سے بلند ہوتی پرواز خیال اور نغمگی کا احساس ہوتا ہے۔ ذرا اس جملے کی خوبصورتی دیکھیے ” اپنے بزرگوں سے چھپ کر دوستی اور رفاقت کی تلاش میں کتابوں کے پاس جانا بڑی دلکش اور محبوب مصروفیت تھی” کم عمری میں برامدے کی لائبریری سے قایم ہونے والا دوستی کا یہ رشتہ الفاظ اور ان کے مفہوم کی بلیغ دنیا سے ایک ایسا بھرپور رشتہ ثابت ہوا جو عمر بھر قایم رہا۔ اس کا ایک اظہار اس کتاب میں انیس اڑسٹھ میں واشنگٹن کی کانگرس لائبریری کے ذکر میں نظر آتا ہے۔ کتابوں سے بھرے اس ہال میں لکھے ہوئے حروف کی اہمیت بازگشت بن کر ایک دفعہ پھر ان کے کانوں میں گونجتی ہے۔ وہ لائبریری اف کانگرس کے کیٹلاگ میں اپنی کتاب “شہر درد” کا حوالہ پا کر بہت خوش ہوتی ہیں. کیونکہ یہ حوالہ خود ان کے فن کی دوبارہ دریافت کا حوالہ تھا۔ کسی بازگشت کی مدد سے اپنے تخلیقی وجود کی بازیافت کا حوالہ۔ یہ کتاب درون ذات کے ذاتی سفر کا احوال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں ایک دلچسپ سفرنامے اور معلومات افزا سماجی تبصرے کی صورت بھی اختیار کرتی دکھای دیتی ہے.
دکھ سکھ سے آگاہی
ذاتی طور پر میں ایسی کتابوں سے زیادہ قربت اور انسیت محسوس کرتا ہوں جن میں عام لوگوں کی آرزووں اور امیدوں کا بیان ہو۔ خودشناسی کی سمت کی گئی جدوجہد کا ذکر ہو۔ “جو رہی سو بے خبری رہی” ایک ایسی ہی کتاب ہے. یہ محض کسی ایک شخص کی انفرادی روداد نہیں بلکہ یہ اپنے زمانے کی معاشرت اور سانس لیتے سماج کی بھرپور عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ ایک ایسی معاشرت جس سے خاص طور پر ہم کراچی میں بسنے اور اردو بولنے والے بہت سے خاندان اپنے بزرگوں کے سناے قصوں کے حوالے سے بخوبی آشنا ہیں۔ یہ ہند و پاک سے تعلق رکھنے والی ان خواتین کی کہانی ہے جو ہجرت کے دکھ اور تجربے سے گذریں۔ جنہوں نے خوشحال گھرانے میں ضرور آنکھ کھولی لیکن جو ہجرت کے المیے اور اپنے دور کے سماجی دکھوں سے خود کو غیر متعلق نہ رکھ سکیں۔ ایک باہنر شاعرہ جو بہت حساس ہو اور قوت اظہار سے مالامال بھی ، وہ ہی ایسی کتاب لکھ سکتی تھی. محترمہ ادا جعفری صاحبہ نے اس کام کو بخوبی نبھایا ہے۔ ہند و پاک کی عورت کو اپنے شعوری اختیار کو حاصل کرنے میں جو جدوجہد اختیار کرنا پڑی اس کے بارے میں وہ ایک جگہ لکھتی ہیں۔ ” مرد کو تو ہمیشہ اس دنیا اور زندگی میں اپنی ترجیحات پر اختیار حاصل رہا ہے۔ لیکن عورت نے خود اپنی جھلک دیکھنے کے لیے بڑا طویل سفر کیا ہے”۔ گویا یہ کتاب اس طویل سفر کی مختصر داستان ہے جو شعور ذات، اپنی فنی انفرادیت اور تخلیقی صلاحیتوں تک پہنچنے کے لیے ہندو پاک کی عورت نے بہت کامیابی سے طے کیا۔
یہاں میں ایک مودبانہ وضاحت کرنا چاہوں گا. میں اس کتاب کا موازنہ سیمون ڈی بوئر یا ورجینیا ولف کی تحریروں سے نہیں کر رہا۔ اور نہ ہی ادا جعفری کی شاعری کا ایملی ڈکنسن یا سلویا پلاتھ کے کلام سے تقابل یہاں مقصود ہے۔ میری گزارش صرف یہ ہے کہ یہ کتاب اپنے طور پر اور اپنے انداز میں ہند و پاک کی عورت کے شعوری سفر کی اہم دستاویز ضرور ہے. اس کتاب کے دور کے عالمی منظرنامے میں ہند و پاک کی سماجی تاریخ اور معاشرتی پس منظر مغربی دنیا سے مختلف تھا۔ اس کے باوجود ذی شعور تاریخ نویس اس کتاب میں موجود حقوق نسواں کے حوالے سے اس انفرادی شعوری جدوجہد کی کہانی کو اہم ضرور سمجھے گا۔
یہ کتاب اس لڑکی کے سفر کی داستان ہے جس نے اپنی زندگی ایک محدود اور محفوظ علاقے اور ماحول سے شروع کی۔ اپنی قدیم روایت پسندی اور باہر کی دنیا کے تغیر سے بے پرواہ یہ ایک بے حد پراسرار اور سوتی جاگتی دنیا تھی۔ اس نو عمر شاعرہ کے تخلیقی اظہار کی پہلی صورت وہ روز نامچہ تھا جو وہ باقاعدگی سے لکھتی تھی۔ اس نے اپنی پہلی محبت یعنی پڑھنے اور لکھنے لکھانے کو اپنا رہن سہن بنا لیا تھا۔ کتابوں کی انگلی تھام کر چلنا اور لفظوں میں سانس لینا سیکھ لیا تھا ۔ حساسیت اور جذبوں کو پہچاننے کی فطری صلاحیت تو اسے خداوند تعالی نے عطا کی تھی۔ لیکن قوت اظہار کے لئے اس نے ہر ممکن ذاتی جد و جہد کا راستہ اختیار کیا تھا . کیا المیہ ہے کہ سن سینتالیس کے فسادات میں ان گنت بیگناہ لوگوں کے ساتھ ایک قتل اس کی ڈائری کا بھی ہوا۔ وہ روزنامچہ بھی اس سے جدا ہو گیا۔ پھر وہ ایک طویل مدّت تک کے لیے بالکل تنہا رہ گئی۔ اپنے اکیلے پن اور الجھے بکھرے بالوں والے وجود کے ساتھ۔ اس کی ساری داستان اب محض اس کے وجود بلکہ انکھوں میں لکھی رہ گئی تھی۔
شعور ذات
اس لڑکی کی یادوں میں کچھ تصویریں زوال یافتہ جانگیرداری نظام کی ہیں جہاں ماضی کی عظمت رفتہ میں زندہ رہنے کی کوشش بھرپور انداز سے جاری تھی۔ روایت کی پاسداری تو اہم ٹہری تھی لیکن جاگیر نسل در نسل مقدمہ بازی کی نظر ہو چکی تھی۔ وراثت میں ملی دولت کی نمائش امراء کی شان اور پہچان تھی۔ اسی روایت کا ایک بے حد پاکیزہ حصہ بھی تھا۔ کم حیثیت رشتے داروں کی کفالت اس رازداری سے کی جاتی کہ لینے والے ہاتھ کو دینے والے ہاتھ کی خبر نہ ہوتی تھی۔ اس جاگیرداری پس منظر میں وہ لڑکی جو فکری لحاظ سے مختلف اور منفرد تھی شاعری کی انگلی تھامے شعور ذات کا سفر جاری رکھے ہوے تھی۔ اسے یوں لگتا تھا کہ اس کے وجود میں چھپی شاعرہ اس کے وجود سے علیحدہ کوئی ہستی ہے جو کبھی اس کی مجبوری ہے اور کبھی اس کی پناہ گاہ. ہندوپاک کی عورتوں کو اس دور میں حقوق نسواں کے عالمی منظرنامے کا براہ راست ادراک حاصل نہ تھا. بیشتر صورتوں میں یہ جد وجہد غیر شعوری اور انفرادی سطح پر تھی ۔ اس کتاب میں کسی سیاسی سرگرمی یا تحریک کا باقاعدہ حصہ بننے کا احوال تو نہیں ہے. لیکن ایک لڑکی کے درون ذات میں شعوری ارتقا کا حساس بیان ضرور ہے۔ یا یوں کہیے کہ وا شگاف بغاوت کے رنگ ڈھنگ تو نہیں ہیں لیکن دھیمے رنگوں اور لہجوں میں ایک تہذیب یافتہ احتجاج کی جھلکیاں ضرور موجود ہیں. ایک لحاظ سے یہ کتاب اس دور میں زور پکڑنے والی ترقی پسند تحریک اور حقوق نسواں کی عالمی جدوجہد کی کہانی کا حصہ ہے . اپنی شناخت، اپنی انفرادیت اور اپنی تخلیقی قوت کو دریافت کرنے کی مسلسل جدوجہد کی کہانی۔ پوری دنیا میں جاری حقوق نسواں کو اپنے طور اور اپنے انداز سے اور اپنی تہذیبی روایتوں کا پاس رکھتے ہوے جاری رکھنے کا قصّہ .
بدایوں اور بدلتے موسم
وہ بچپن ہی سے پسے ہوئے طبقات سے خود کو ذہنی اور جذباتی طور پر زیادہ قریب محسوس کرتی تھیں۔ وہ اپنی گھریلو ملازمہ رحمت سے اپنے تعلق اور اس کے گھر جانے کے واقعے کو قلم بند کرتے ہوئے انسیت کا اظہار کرتی ہیں۔ کس طرح وہ اس مظلوم اور محروم گھرانے میں جا کر خود کو رچا بسا محسوس کر لیتی تھیں۔ اس نوجوان شاعرہ کا فطری تعلق ہواؤں، بادلوں، شگوفوں، درختوں اور فطری مظاہر سے بہت گہرا تھا لیکن سب سے گہرا تعلق انسانیت سے تھا. یہ کتاب بدایوں کے اس دور کی روایتی معاشرت اور ثقافتی سرگرمیوں کا دلچسپ احوال اور مرقع بھی ہے۔ لکھتی ہیں ان کے بچپن میں بدائیوں کا ماحول بہت متوازن تھا۔ اس زمانے میں بقول ان کے مذہب سیاست نہیں بنا تھا. اسی لیے فرمان الہی اور نظام مصطفی کی پیروی ایک اسان عمل تھا۔ اور شدت پسندی کا تصور دور دور تک نہ تھا۔ بقول ان کے بدائیوں دل والوں کا شہر تھا. وہاں کے صوفیا اور علماء کے تذکرے ہندوستان کی تاریخ میں جا بجا موجود ہیں. شاعری تو بدائیوں کی مٹی میں گندھی ہوئی تھی. اس شہر کے ناخواندہ لوگ بھی شعر کی تاثیر سے ضرور آشنا ہوتے تھے. شہر میں مشاعرے کی روایت عام تھی. بدائیوں کے کئی گھرانوں کے مرد رفتہ رفتہ روزگار کے سلسلے میں علی گڑھ، الہ اباد اور دوسرے شہروں میں مقیم ہوئے تو برادری کی نگاہوں سے دوری لڑکیوں کے حق میں نعمت ثابت ہوئی. اپنے شہر کے نیم روشن گھٹے ہوئے ماحول سے نجات ملی تو بہت سے لوگوں کو لڑکیوں کی تعلیم معیوب نظر نہیں ائی. زندگی کے تقاضوں اور وقت کے احکامات کو کچھ مدت کے لیے ٹالا جا سکتا ہے. لیکن قطعی مسترد کر دینا ممکن نہیں ہوتا. وقت کی بلند اہنگ دستک تو بندی خانوں تک پہنچ جاتی ہے. ہوا یہ کہ اندھیروں کی ادھ کھلی انکھوں نے بھی اب دیکھنا سیکھ لیا . اگرچہ یہ آسان نہیں تھا. لیکن اب عورت اپنی زندگی خود جینا چاہتی تھی. یہ صورت حال ولولہ انگیز تھی .
ذرا یہ شعر دیکھیے گا
[
وہ روز و شب بھی کہ جن سے شکایتیں تھیں بہت
اب اتنی دور سے دیکھا تو دل کشا ٹھہرے
ادبی منظر نامہ
بہت کم عمری میں ان کی نظمیں اور غزلیں اس وقت کے رسائل جن میں سویرا، ادب لطیف اور شاہکار وغیرہ شامل تھے شائع ہونے لگی تھیں۔ ادا جعفری اور ان کی اولین دور کی ساتھیوں صفیہ شمیم ملیح ابادی اور نجمہ تصدق حسین جیسی شاعرات نے پہلی دفعہ شدید حبس کے ماحول میں سانس لینے کی کوشش کی تھی . بسیط خلا میں سوچنے کی صلاحیت حاصل کی تھی . انہوں نے صدائے احتجاج تو بلند نہ کی تھی. لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان خواتین کا تعلق ان روایتی مشرقی گھروں کے انگن سے تھا جہاں بولنے ہی پر پابندی تھی. ان کا اعزاز یہ ہے کہ انہوں نے کم از کم بات کرنا تو شروع کی. وہ جدید شاعری اور مختصر افسانے کے عروج کا زمانہ تھا. اردو ادب میں پہلی بار حقیقی زندگی اپنی تمام تاریخ اور روشن چہروں کے ساتھ بے نقاب ہوئی تھی. اردو شعر و ادب کی تاریخ کے نئے ابواب تحریر ہو رہے تھے. نئے مباحث چھڑے ہوئے تھے جو برسوں الجھتے سلجھتے رہے. ایک جگہ لکھتی ہیں. ” زندگی کے میلے میں شرکت کا احساس مجھے ترقی پسند تحریک نے عطا کیا اور یہ بڑا دل و دماغ اور جاں پرور احساس تھا”
ترقی پسند تحریک کا اغاز 1935 میں اسی شہر لندن سے ہوا تھا. جس کی مرکزی شخصیت محترم سجاد ظہیر صاحب تھے۔ اہستہ اہستہ بہت سے نامور ادیبوں اور شاعروں نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔ ان میں فراق گورکھپوری، حسرت موہانی، پریم چند ، مولوی عبدالحق اور قاضی عبدالغفار جیسی شخصیات بھی شامل تھیں۔ اگرچہ ادا جعفری صاحبہ ادبی منظرنامے پر ترقی پسند تحریک کے اثرات سے بہت متاثر تھیں کیونکہ یہ تحریک اتنی اثر پذیر تھی کہ صحنوں اور دالانوں تک اور گھریلو خواتین کے ذہنوں تک پہنچ چکی تھی۔ لیکن وہ کبھی بھی اس کی باقاعدہ رکن نہیں رہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ذاتی مزاج اس تحریک کے سیاسی رجحانات سے مطابقت نہ رکھتا تھا۔ ان کے اشعار ترقی پسند ادیبوں کے رسائل میں باقاعدگی سے شائع ہو رہے تھے۔ ترقی پسند ادب کا جو انتخاب بھی شائع ہوتا ان میں ان کا کلام شریک اشاعت ہوتا۔ مثلا “نئے زاویے” کے رسالے میں وہ برابر چھپتی رہیں جسے کرشن چندر مرتب کیا کرتے تھے۔
جدید مختصر افسانہ اس وقت اپنے کمال کی منزلوں کو پہنچ رہا تھا. منٹو، بیدی، عصمت چغتائی، میرزادیب، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی، کرشن چندر، اور دوسرے اہم افسانہ نگار چونکا دینے والے خوبصورت اور جدید افسانے تخلیق کر رہے تھے خدیجہ مستور، حاجرہ مسرور، اور قرتالعین حیدر قلم کے کمالات دکھا رہی تھیں۔ یہ سب اپنے اپنے انداز میں زندگی کی سچائیوں کے ترجمان تھے۔ یہ بڑا بامراد کارواں تھا۔ کچھ قلم کاروں پر لگاتار اعتراضات بھی ہو رہے تھے۔ لیکن مسلسل کتابیں بھی شائع ہو رہی تھیں۔ عدالتوں کے در بھی کھٹکھٹائے جا رہے تھے لیکن جرم ثابت بھی نہ ہوتا تھا۔ بڑا جاگتا ہوا اور بہت جیدار وقت تھا۔ اس ساری صورتحال میں نو اموز شاعرہ کو بغاوت کی ایک ہی صورت نظر ائی کہ وہ لگی بندھی روایتی مجبوریوں سے ہٹ کر ازاد اور معرہ نظم میں اظہار خیال کرے۔ اور اس نے ایسا ہی کیا بھی۔ اس زمانے کی طویل نظم ” میں ساز ڈھونڈتی رہی” اسی دور کی ان کی ایک یادگار نظم ہے۔
ابھی تک یاد ہے مجھ کو
کہ جب چلنا میرے پیروں نے سیکھا تھا
مرے پیروں میں زنجیریں تھیں
زنجیریں جنہیں اسائش تہذیب اور پازیب کہتے تھے
اختتام
آخر میں میں ڈاکٹر عامر جعفری اور بیٹی اسرا جعفری کو اردو ادب کی ایک اہم دستاویز کو کامیابی سے ترجمہ کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں.
کسی بھی ادبی نثر یا شاعری کا ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا اسان نہیں ہوتا. ادا جعفری کی نثر میں اردو شاعری کی روایت اور نغمگی جگہ جگہ نظر اتی ہے. اسے انگریزی کا قالب کس طرح پہنایا جا سکا یہ مرے لئے ایک پر اشتیاق بات ہے. مثال کے طور پر اس جملے کو ہی لیجیے
مقصود نگاہ مقدر ہو نہ ہو مژگاں اٹھانے کی ارزو بھی کچھ کم محترم نہیں ہوتی”. جانے اس جملے کا انگریزی ترجمہ کیونکر ممکن ہوا ہو گا ؟
اس کتاب کو پڑھ کر یہ یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ انسان کو فکری ازادی سے زیادہ بڑھ کر کوئی اور نعمت حاصل نہیں ہو سکتی. کوئی بھی شخص اپنے دور کے المیے سے ازاد فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کے ذریعے ہی سے باہر آ سکتا ہے. ادا جعفری کا شاعرانہ سفر بغاوت سے نہیں ماں کی اجازت اور اس کی ممنونیت سے شروع ہوا تھا . لیکن وہ خود کو روس کی شاعرہ کیرولینا پاولووا انگلستان کی ناول نگار اور شاعرہ ایملی برونٹے ، امریکہ کی ایمیلی ڈکنسن اور سلویا پلا تھ سے جڑا محسوس کرتی ہیں. میں ذاتی طور پر خود کو ادا جعفری صاحبہ سے قریب تر یوں محسوس کرتا ہوں کیونکہ وہ بھی میری طرح حصول علم کی عالمی جد و جہد سے خود کو متعلق محسوس کرتی ہیں. وہ کہتی ہیں ” میرے دیس کے کسی چھوٹے سے گاؤں کا وہ مدرس جو پیڑ کی چھاؤں میں ٹوٹی پھوٹی چٹائیوں پر بیٹھے ہوئے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس چند بچوں کو پڑھاتا نظر اتا ہے وہ بھی اسی عالمگیر برادری کا ایک معزز رکن ہے”
شکریہ !
شارق علی