Is life sustainable when body is frozen, blood is ice crystal, circulation and breathing almost stops for many months? You will find the answer in this story
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
لمبی نیند، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پانچواں انشا
بابل نے ایک آنکھ میچ کر نشانہ لیا۔ کھنچی ہوئی غلیل سے کنکر گولی کی طرح نکلا۔ منہ میں جنگلی اخروٹ دباے بے نیاز گلہری پھدک کر سبز جھاڑیوں میں گم ہو گئی ۔ نشانہ خطا ہونے پر بابل کچھ آزردہ سا ہوگیا ۔دادا جی کی بے ضرر جانور پر ائیر گن نہ چلانے کی ہدایت نے مجھے بھی روکے رکھا۔ بابل کی غلیل، میری ایئر گن اور پھول بن کے جنگلوں میں گلہریوں، گرگٹوں اور پرندوں کا پیچھا۔ آپ سمجھ ہی گئے ہونگے۔ بابل اور میں گہرے دوست ہیں۔ اس کا کچا مکان زیادہ دور نہیں۔ پانچویں پاس کرنے کے بعد ہی سے وہ کھیتی باڑی میں اپنے باپ کی مدد کرتا ہے۔ عمر مجھ سے ایک سال کم لیکن قد دوانچ زیادہ۔ داداجی ہم دونوں کو کھیلتا دیکھیں تو خوش ہوتے ہیں لیکن بابل کے ماں باپ نہیں۔ انہیں دادا جی کی یہ تجویز کہ بابل کو اور پڑھنا چاہیے، ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ کھیتوں میں ایک آدمی بھی کم ہوجائے تو بہت فرق پڑتا ہے ۔ہم دونوں ناکام شکاری پہلے تو درخت پر چڑھ کر اس شاخ تک پہنچے جہاں گلہری کا گھونسلہ تھا۔ وہاں ہم نے آرام دہ گھاس پھوس کے تھیلے میں جمع کیے ہوئے بہت سے جنگلی اخروٹ دیکھے ۔ پھر ہم درخت سے اتر کر ندی کنارے بیٹھے تو بابل نے کہا۔ لالچی گلہری۔آخر وہ اتنے سارے اخروٹوں کا کرے گی کیا؟ میں نے وضاحت کی۔ دادا جی کہتے ہیں بہت سے جانور سردیوں کا موسم ایک لمبی نیند یعنی ہائبرنیشن میں گزارتے ہیں۔ ہوسکتا ہے گلہری لمبی نیند سے پہلے بہت سے اخروٹ کھاتی ہو تاکہ جسم کئی مہینوں کی لمبی نیند کے دوران گرم رہ سکے۔اگر تم ڈورمائس نامی چوہے کو پتوں کے گھونسلے میں پیر سمیٹے بالکل گول ہوکر لمبی نیند لیتا دیکھو تو اسے مرا ہوا سمجھو گے۔ جسم بالکل ٹھنڈا، سانس تقریبا بند، تاکہ آکسیجن اور توانائی بہت کم خرچ ہو۔ اسی طرح ووڈ فراگ نامی جنگلی مینڈک کی لمبی نیند کا تو جواب ہی نہیں ہے۔ خشک پتوں یا مٹی کی ہلکی تہہ کے نیچے، سردی کے ساتھ ساتھ اس کا جسم بھی سرد پڑتا چلا جاتا ہے۔حتیٰ کہ خون منجمد ہو کر برف بن جاتا ہے اور سانسیں بالکل بند۔ کئی مہینوں بعد موسم گرم ہوتے ہی وہ ڈی فراسٹ ہوکر دوبارہ سانسیں لینا شروع کردیتا ہے۔ آج کل ڈاکٹروں نے بھی شدید زخمی مریضوں یا اعضا کی پیوند کاری میں جسم کو ٹھنڈا کرکے اپنے آپریشن میں زیادہ مہلت لینی شروع کردی ہے۔ جسم ٹھنڈا ہوجائے تو آکسیجن کی ضرورت کم یا بالکل بھی نہیں رہتی۔ اورہم انسان سانسں لیے بغیر کچھ مدت تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ آپریشن کے اختتام پر رگوں میں گرم خون داخل کر کے جسم کو دوبارہ نارمل حالت میں لایا جاتا ہے——-۔جاری ہے