Skip to content
Home » Blog » قرطبہ کی گلیاں، چھٹی قسط ، اندلس کہانی

قرطبہ کی گلیاں، چھٹی قسط ، اندلس کہانی

  • by

قرطبہ کی گلیاں، چھٹی قسط ، اندلس کہانی

شارق علی
ویلیو ورسٹی

سیاحتی گروپ قرطبہ کی زندہ گلیوں میں قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا تھا۔ ہر طرف نکھری ہوئی دھوپ بکھری تھی۔ بیشتر مکانوں پر کیا گیا سفید پینٹ سورج کی روشنی کو منعکس کر کے پورے منظر کو جگمگا رہا تھا۔ چلتے چلتے کہیں دکانوں کے شیشوں سے اندر کا منظر جھلک دکھا دیتا۔ فاسٹ فوڈ کے آؤٹ لیٹس سے اٹھتی تیز خوشبو، پتھریلے راستوں پر بڑھتے قدموں کی آوازیں، اور چھوٹی بڑی دکانوں میں بکنے والے قرطبہ کے سووینئرز: فریج میگنیٹس، رنگین پنکھیاں، خوشبودار صابن، ہاتھ سے بنے مٹی کے برتن اور نہ جانے کیا کچھ۔

اسی جدید دنیا کی گہماگہمی کے پس منظر میں یوں لگتا جیسے ماضی کے دھندلے سائے بھی اردگرد ہی کہیں منڈلا رہے ہوں۔
وہ دنیا جو دکھائی تو نہ دے، مگر محسوس کی جا سکتی ہو۔

ہم جن گلیوں سے آج گزر رہے ہیں، انہی میں اندلس کے سنہری دور میں ابن حیّان کے قلم کی دھوم تھی۔ 987ء میں پیدا ہونے والا یہ مؤرخ انہی گلیوں میں پلا بڑھا۔ وہ اپنی کتابوں میں قرطبہ کی علمی، سیاسی، اور ثقافتی گہماگہمی کو محفوظ کرتا چلا گیا۔

آگے بڑھے تو ایک قدیم دیوار پر چند اشعار کندہ دکھائی دیے۔ میں نے سوچا، ممکن ہے یہ ابن زیدون کی کوئی نظم ہو ۔ شہزادی ولیدہ کی محبت میں کہا گیا کوئی خوبصورتِ کلام۔ چاہت، بغاوت اور بربادی کا کوئی مضمون۔ ابن زیدون کے اشعار میں یہ سب جذبات قرطبہ کے ثقافتی رنگوں میں گندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس شہر کے سنہری دور میں، جب یہاں علم و فن، اور شاعری کا بول بالا تھا، ابن زیدون نے جنم لیا۔ وہ جلد ہی ایک خوبصورت، ذہین، اور رومانویت سے بھرپور شاعر کی حیثیت سے مشہور ہو گیا۔
اس کا کلام ایوانوں میں گونجنے لگا۔ پھر اس کا دل ایک انوکھے مقام پر جا اٹکا ۔ خلیفہ وقت کی بیٹی، شہزادی ولیدہ بنت المستکفی پر۔

ولیدہ صرف شہزادی نہیں تھی، بلکہ خود بھی ایک بلند پایہ شاعرہ تھی۔ آزاد خیال، بلند حوصلہ، اور اپنی مرضی سے جینے والی۔ اُس دور کے لحاظ سے یہ ایک منفرد بات تھی۔
اس نے قرطبہ میں ادبی محفلوں کی بنیاد رکھی جہاں مرد و زن برابر کی حیثیت سے علم و ادب پر گفتگو کرتے۔

یہ قرطبہ کے بارہویں صدی کے سنہری دور کا قصہ ہے جب ابن زیدون اور ولیدہ کی ملاقات ہوئی۔ گویا دو آتشیں روحوں کا ملاپ ہوا۔

ان کا عشق محض مجازی نہیں بلکہ فکری اور شعری بھی تھا۔ ابن زیدون کے اشعار ولیدہ کے حسن و فکر سے متاثر ہوئے، اور ولیدہ کی شاعری ابن زیدون کے جذبوں کی بازگشت بن گئی۔

پھر سیاست، حسد، اور معاشرتی دباؤ نے ان کے درمیان دیواریں کھڑی کر دیں۔ ولیدہ نے ابن زیدون سے منہ موڑ لیا ۔ مجبوری یا شاید دل شکستگی۔
ابن زیدون نے باقی عمر اپنے عشق کو اپنی شاعری میں زندہ رکھا۔

اس کی ایک مشہور نظم کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

“اگر رات کی تاریکی میں تم میرے پاس نہیں
تو کیا ہوا؟ تمہارا تصور تو میرے ساتھ ہے!”

ناکام عشق کی یہ داستان آج بھی قرطبہ کے گلی کوچوں میں سرگوشیوں کی صورت گونجتی ہے۔

سورج کی کرنیں اب زاویہ بدل چکی تھیں۔ ہم قرطبہ کی پیچیدہ، تنگ اور کشادہ گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک کھلے چوک میں جا پہنچے۔ وسط میں ایک چھوٹا سا فوارہ رواں تھا، جس کا پانی نکھری دھوپ میں سونے کی طرح چمک رہا تھا۔
چوک میں ایک شرارتی بچہ جوتے کی دھمک سے کبوتر اڑا رہا تھا۔ سیاح اپنے کیمروں میں لمحے قید کر رہے تھے۔ گلی کے کنارے کھڑی ایک بوڑھی ہسپانوی عورت ہاتھ سے بنے سووینئر بیچ رہی تھی۔ ایک نوجوان گٹار پر ناآشنا اندلسی دُھن چھیڑے بیٹھا تھا۔

جب تمام سیاح اپنے گائیڈ پیڈرو کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہو گئے تو اُس نے گفتگو کا آغاز کیا اور بولا:

“اپنے سنہری دور میں یہ شہر علم، ادب، سائنس، فلسفے، حتیٰ کہ طب کی عالمی ترقی میں بھی عظیم کارنامے انجام دے رہا تھا۔
کیا آپ قرطبہ کے ان عظیم بیٹوں میں سے کسی ایک کا بھی نام جانتے ہیں؟”

میں نے ہاتھ ہلکا سا اٹھایا اور کہا: “الزہراوی۔”
پیڈرو مسکرایا اور بولا:
“محترم، کیا آپ ہم سب سے اپنا اور پھر الزہراوی کا مختصر تعارف کروا سکتے ہیں؟”

میں نے اپنا نام بتایا اور یہ بھی کہ میں پیشے کے اعتبار سے سرجن ہوں۔

پھر میں نے اپنے سیاح ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے بولنا شروع کیا:

“الزہراوی، جسے مغرب میں Abulcasis کے نام سے جانا جاتا ہے، دسویں صدی میں قرطبہ کے نواح میں پیدا ہوا۔
یہ وہ وقت تھا جب یورپ عمومی طور پر دورِ تاریکی میں تھا، لیکن مسلمانوں کا اندلس علم و فکر کا ایک روشن مینار تھا۔

الزہراوی نے طب کو ایک مکمل سائنس کی صورت دی۔ اُس نے تاریخ میں پہلی بار التصریف نامی تیس جلدوں پر مشتمل طبی انسائیکلوپیڈیا تحریر کی۔
اس کی آخری جلد صرف جراحی (سرجری) کے بارے میں تھی۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے sterilization, جراحی کے اوزار، اور مخصوص طبی تکنیکوں کو منظم انداز میں تحریر کیا۔

شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ
بہت سے آلاتِ جراحی جو آج بھی دنیا بھر کے آپریٹنگ تھیٹروں میں استعمال ہوتے ہیں، ان کے بنیادی ڈیزائن الزہراوی نے بنائے تھے۔ جیسے فورسیپس، کیتھیٹر، سرجیکل سیزر، حتیٰ کہ فریکچر کا علاج کرنے والے آلات۔

وہ صرف جراح ہی نہیں، ایک معلم بھی تھا۔ اُس نے اپنے شاگردوں اور آنے والے کئی نسلوں کے طبیبوں کو سکھایا کہ مریض کی عزت، اُس کے درد کی شدت، اور اُس کی زندگی کی حرمت سب سے مقدم ہے۔

اس کی علمی حصہ داری محض قرطبہ تک محدود نہ رہی۔ اس کا علم آنے والی کئی صدیوں تک یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا رہا

الزہراوی بلاشبہ قرطبہ کا ایک روشن ستارہ ہے۔

پیڈرو اور دوسرے سیاح خاموشی سے میری بات سن رہے تھے۔ فوارے کا پانی بہ رہا تھا۔
پھر کسی نے ہلکی سی تالی بجائی اور باقی سب نے بھی ساتھ دیا۔

اب ہم سب قرطبہ کے قدیم تاریخی محلے یہودی کوارٹرز کی حدود میں داخل ہو رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *