20 نومبر 2024 کو فیض احمد فیض کی 40 ویں برسی پر منعقد کی گئی یادگاری تقریب کے موقع پر پاکستان ہائی کمیشن، لندن میں کی گئی تقریر کے چند اقتباسات
فیض احمد فیض: شاعر اور فکری رہنما
شارق علی ویلیوورسٹی
فیض صاحب نہ صرف میری بلکہ کءی ترقی پسند نوجوان نسلوں کے جذبات و احساسات کے شاعرانہ ترجمان رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اور شاید اس سے کہیں بڑھ کر، ایک فکری رہنما کے طور پر ان کی شخصیت ایک روشن مینار کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ میرے دور کے شمار نوجوانوں نے نہ صرف ان کی شاعری بلکہ ان کے طرزِ عمل اور سیاسی افکار سے نہ صرف سیکھا بلکہ اسے اپنا رول ماڈل بنا کر اس کی تقلید بھی کی ہے۔
گذارش احوال
یہ گفتگو اور تحریر عالمانہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ تنقیدی معیارات پر پورا اترنے کی کوئی کوشش ہے۔
یہ گذارشات فیض صاحب کے بارے میں ایک طالب علم کا عقیدت مندانہ خراج تحسین ہیں اور بس۔
فیض ایک مختصر تعارف
فیض 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کرنے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں ماسٹرز مکمل کیا۔ ایک نوجوان کی حیثیت سے انہیں گریٹ ڈپریشن کی بے روزگاری کا تجربہ بھی رہا۔ فوج میں ملازمت بھی کی اور صحافیانہ ذمہ داری بھی انجام دی۔
گویا فیض نہ صرف ادب بلکہ عملی میدان کے کامیاب کھلاڑی تھے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے رکن تھے اور “پاکستان ٹائمز” کے مدیر بھی رہے۔ مدرسی بھی کی، ٹریڈ یونینسٹ بھی رہے۔ پھر راولپنڈی سازش کیس میں انہیں قید کر دیا گیا، لیکن ان کے مارکسسٹ خیالات اور عزم مزید پختہ ہوا۔ فیض کی شخصیت ان کی شاعری کی طرح وسیع اور متنوع تھی، جس میں محبت، جدوجہد، اور انسان دوستی کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔
شاعری کا آغاز عشق اور محبت کی اردو روایت سے ہوا لیکن ڈاکٹر رشید جہاں اور سجاد ظہیر اور دیگر ترقی پسند دوستوں سے متاثر ہو کر جلد ہی انہوں نے اپنی شاعری کو معاشرتی ناانصافی، طبقاتی تضاد، اور انسانی حقوق کے مسائل کے لئے وقف کر دیا۔ ان کی نظمیں “بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” اور “ہم دیکھیں گے” زبان زد عام بھی ہیں اور ان کے انقلابی خیالات کا بھرپور اظہار بھی۔
فیض نے “دستِ صبا” اور “زنداں نامہ” جیسے مجموعوں کے ذریعے اردو ادب کو نئے افق عطا کیے۔
فیض عالمی ادبی منظر نامے پر متحرک تھے۔ ان کی خدمات کو عالمی سطح پر سراہا گیا، اور 1963 میں انہیں لینن امن انعام سے نوازا گیا۔
میرا بچپن اور فیض
فیض صاحب کہ کلام سے میری ذاتی شناسای ان کی کتاب دست صبا کے حوالے سے بہت بچپن پی میں ہو گئی تھی۔ یہ گویا میرے شعور اور ادبی ذوق کے نکھار کے سفر کا آغاز تھا۔ عمر کؤی دس گیارہ برس کی ہو گی۔ بچوں کی کہانیاں پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ گرمیوں کی چھٹی کی ایک تپتی دوپہر میں جب گھر میں موجود تمام کہانی کی کتابیں پڑھی جا چکی تھیں۔ فیملی بک شیلف میں رکھی ایک بہت دبلی پتلی سی کتاب نے مجھے متوجہ کیا۔ نام تھا “دست صبا”۔ منفرد اور دلکش سرورق والی اس کتاب کو میں نے پڑھ تو لیا لیکن اس کی تفہیم میری ذہنی سطح سے بالا تر تھی۔ پوری طرح سمجھ میں نہ آنے کے باوجود اس کتاب میں موجود نظموں کی نغمگی نے مجھے مسحور کر دیا۔ فیض کی شاعری اور میرے درمیان تعارف تعلق اور گفتگو شروع ہو گئی۔
میں ہمدم اور دوست دونوں لفظوں سے اشنا تھا۔ دست صبا کی یہ نظم مجھے جلد ہی ازبر ہو گئی اور میں اسے اپنے گلی محلے کے دوستوں کو گاہے بگاہے سنانے لگا۔
میرے ہمدم میرے دوست
گر مجھے اس کا یقین ہو میرے ہمدم میرے دوست
گر مجھے اس کا یقین ہو کہ تیرے دل کی تھکن
تیری انکھوں کی اداسی، تیرے سینے کی جلن
میری دل جوءی مرے پیار سے مٹ جائے گی
گر میرا حرف تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر تیرا اجڑا ہوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ہو جائے
گر مجھے اس کا یقین ہو میرے ہمدم میرے دوست
روز و شب، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں ہلکے شیریں
آپشاروں کے، بہاروں کے، چمن زاروں کے گیت
اور پھر آگے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
پر میرے گیت تیرے دکھ کا مداوا ہی نہیں
نغمہ جراح نہیں مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں، مرہم ازار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا میرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی زی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا، تیرے سوا، تیرے سوا
دست صبا سے تعارف کے سال دو سال بعد، میرے بڑے بھائی اسٹیل ملز کی جانب سے ٹریننگ کے لیے ماسکو روانہ ہونے لگے تو دیگر خاندان کے ساتھ میں انہیں رخصت کرنے کراچی ائیرپورٹ پہنچا۔ گرے سوٹ اور ٹائی میں ملبوس ایک باوقار شخصیت کو ادھر سے ادھر جاتے مصروف پایا۔ مسلسل ہونٹوں پر کھیلتی دھیمی مسکراہٹ۔ ہاتھ میں سلگتا ہوا سگرٹ۔ وہ اپنے وفد کے دیگر ارکان کے سلسلے میں انتظامات اور خوشگوار گفتگو میں مصروف تھے۔ کسی نے کان میں سرگوشی کی۔ یہ فیض احمد فیض ہیں۔ خیال کو تجسیم میسر آ گئی۔ تعلق اور مضبوط ہو گیا۔
طالب علمی کا دور اور فیض
ڈاؤ میڈیکل کالج کے دنوں میں فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے شناسائی کے بھرپور مواقع ملے۔ اس دور میں ہم نوجوان طالب علموں کی فکری رہنمائی میں ان کی شاعری نے اہم کردار ادا کیا۔
مستقبل کے حسین خواب دیکھنا، سماجی انصاف اور زندگی کے جمالیاتی تصور خاص طور پر صنف مخالف کے حسن سے متاثر ہونا، نوجوانی کا تقاضا تھا۔ لیکن ان خیالات کو منظوم آواز فیض کی شاعری نے دی۔
کالج کی سیڑھیوں پر ہم خیال دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر “ہم دیکھیں گے” گانا ایک روحانی تجربہ محسوس ہونے لگا۔
“مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ” اور ایسی ہی دوسری نظمیں اپنی معنویت اور نغمگی کے ساتھ ہمارے دلوں میں گھر کرنے لگیں۔ فیض کا پرجوش کلام ظلم اور سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا جذبہ فراہم کرتا تھا۔
ان کی شاعری الفاظ نہیں ہمارے دلوں میں بسے احساسات اور خوابوں کی ترجمانی تھی۔ ان کی ثجسیم تھی۔
ہم دوستوں کو فیض کی شخصیت کی عاجزی اور سادگی سے اگاہی ان کے خطوط پر مشتمل کتاب “صلیبیں مرے دریچے میں” پڑھ کر ہوی۔
اس کتاب کے ذریعے ان کے کردار اور شخصیت کی سربلندی نے بہت سے سبق سکھائے ۔ مثلا یہ کہ شریف النفس سے کیا مراد ہے۔ ہم نے جتنا کچھ بھی ان کے بارے میں جانا، اسی نتیجے پر پہنچے کہ فیض صاحب صحیح معنوں میں شریف النفس ادمی تھے۔
ہم نے اس کتاب سے یہ بھی سیکھا کہ شاعر کا کام محض محبت کے گیت گانا ہی نہیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونا بھی ہے۔
اردو اور عالمی ادبی منظر نامہ
فیض کا ایک اور قابل ذکر کارنامہ عالمی سطح پر اردو ادب کو متعارف کروانا ہے۔ ان کی شاعری اور شخصیت نے اس کام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پابلو نرودا، ناظم حکمت، اور محمود درویش جیسے عالمی شہرت یافتہ مزاحمتی شعرا کے ساتھ ان کے ڈاتی مراسم تھے۔
پابلو نرودا سے ان کی ملاقات 1962 میں ماسکو میں ہوئی، جہاں دونوں نے ادب اور سیاست پر سیر حاصل تبادلۂ خیال کیا۔
ناظم حکمت کے ساتھ ان کی دوستی اس وقت پروان چڑھی جب فیض نے ان کی شاعری کا اردو میں ترجمہ کیا اور ان پر نظم لکھی۔
محمود درویش سے ان کا تعلق بیروت میں قیام کے دوران مضبوط ہوا، جہاں دونوں نے فلسطینی کاز پر مشترکہ جدوجہد کی۔ ان دوستیوں نے فیض کی شاعری کو عالمی سطح پر وسعت دی اور ان کے نظریات کو تقویت بخشی۔
انہیں بین الاقوامی ادبی حلقوں میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ ماسکو میں لینن ادب انعام سے نوازا جانا ان کی ادبی عظمت کا کھلا اعتراف تھا۔
فیض بیروت میں بھی بہت متحرک رہے، جہاں انہوں نے لوٹس میگزین کی ادارت کی۔ یہ رسالہ ترقی پسند سوچ کا نمائندہ تھا، جس کے ذریعے فیض نے عالمی ادبی تحریکوں کو اردو ادب سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے انقلابی افکار، ادبی خدمات، اور عالمی روابط نے اردو کو ایک منفرد شناخت عطا کی۔
شعری محاسن
فیض محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک مدرسۂ فکر تھے۔ انہوں نے بصیرت، تفکر اور احساسات کو خلوص اور فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ شاعری میں ڈھالا۔
اردو شاعری کی روایت میں سماجی انصاف اور انقلابی خیالات کو شامل کرنا ان کا عظیم اور منفرد کارنامہ تھا۔ لیکن اس سارے تخلیقی عمل کے دوران انہوں نے کبھی بھی شعری جمالیت پر سمجھوتا نہیں کیا۔ یہ ان کا سب سب سے بڑا کمال تھا۔
انہوں نے شاعرانہ اظہار کے حسن اور تاثیر پر اتنی ہی توجہ دی جتنی کہ کلام میں موجود مقصدیت اور پیغام پر۔ ایک باکمال اور باہنر شاعر ہی ایسا ممکن کر کے دکھا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ایک انوکھی اثر پذیری، نرمی، اور قوتِ شفا موجود ہے، جو اردو کے دیگر شعرا کے ہاں کم ہی نظر آتی ہے۔ معروف شاعر مجروح سلطان پوری نے انہیں ترقی پسند تحریک کے میر تقی میر کا خطاب دیا تھا۔
انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر نے اور مشرقی تہذیب کی روح سے بخوبی واقفیت نے ان کے کلام میں مشرق اور مغرب کا ایک حسین امتزاج پیدا کیا۔
فیض کے خیالات کی سنجیدگی، شخصیت کے توازن، شاعرانہ کمال، اور الفاظ کے معتدل استعمال نے انہیں ایک بھرپور اور ہمہ جہت شاعر بنا دیا ہے۔
مثال کے طور پر اس نظم میں موجود حسن و جمال ملاحظہ فرمائیے
کوئی شاعر کسی محبوبہ سے
گلشن یاد میں گر آج دم باد صبا
پھر سے چاہے کہ گل افشاں ہو تو ہو جانے دو
عمر رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو تو ہو جانے دو
جیسے بیگانے سے اب ملتے ہو ویسے ہی سہی
آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گرچہ مل بیٹھیں گے ہم تم تو ملاقات کے بعد
اپنا احساس زیاں اور زیادہ ہوگا
ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں تو ہر بات کے بیچ
ان کہی بات کا موہوم سا پردہ ہوگا
کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا نہ تم
کوئی مضمون وفا کا نہ جفا کا ہوگا
گرد ایام کی تحریر کو دھونے کے لیے
تم سے گویا ہوں دم دید جو میری پلکیں
تم جو چاہو تو سنو اور جو نہ چاہو نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو اور جو نہ چاہو نہ کہو
خواتین و حضرات
میں نے اپنی ان مختصر گزارشات میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ
فیض نہ صرف اردو ادب کا ایک عظیم سرمایہ ہیں بلکہ وہ عالمی مزاحمتی ادب کی ایک نمایاں اور ممتاز آواز بھی ہیں۔
ان کی شاعری آج بھی اردو زبان کے قارئین کو متاثر کرتی ہے اور تراجم کے ذریعے سے ان کی اثر پذیری عالمی ادب کے افق پر برقرار ہے۔
میں زندگی میں ان کی حصےداری کو ادب کے دائرے سے اگے بڑھ کر انسانیت کے آفاقی مسائل اور جدوجہد کی نمائندگی کے منصب پر فائز دیکھتا ہوں۔
اس عظیم شاعر کو خراجِ تحسین جس کے کلام نے ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو قوت بخشی