“I am enough of an artist to draw freely upon my imagination. Imagination is more important than knowledge. Knowledge is limited. Imagination encircles the world.”
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
فنکار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، دسواں انشا
گھنٹی بجی، دادا جی نے دروازہ کھولا۔ سرکاری وردی میں ملبوس، ایک ہاتھ میں تھیلا، دوسرے میں لفافے۔ میں خوف کے مارے کونے ہی میں دبکا رہا۔ دستخط کر کے ، لفافہ کھولا اور کاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے دادا جی بولے ۔سارے مضامین میں اے اور حساب میں اے اسٹار۔ بھئ ہمارے ممدو نے تو آئنسٹائن کوبھی مات دے دی۔ مارے خوشی کے میں پھولا نہ سماتا تھا ۔کچھ دیر مبارکبادوں اور مٹھائی کھانے کھلانے میں گزری ۔پھر جب سب چائے کے مگ لیے صوفوں پر بیٹھے تو میں نے پوچھا۔ کیا واقعی آئنسٹائن اسکول میں ذہین طالب علم شمار نہ ہوتا تھا؟ انکل بولے۔اٹھارہ سو اناسی میں یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے اس لڑکے کو میونخ کے اسکول ماسٹروں نے درمیانے درجے کا طالب علم قرار دیا تھا لیکن ۔وہ بچپن ہی سے فزکس اور ریاضی میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ انیس سومیں تعلیم مکمل کرکے پیٹنٹ آفس میں ملازمت کے دوران وہ فارغ وقت میں تھیوریٹکل فزکس کا مطالعہ کرتا رہتا۔ اگلے پانچ سالوں میں اس نے حیران کن سائنسی مضامین لکھے۔ جن میں تھیوری آف ریلیٹیوٹی اور مشہور عالم فارمولا ای برابر ایم سی اسکوائر شامل ہیں۔ میں نے پوچھا۔ اس فارمولے کا فائدہ؟ دادا جی بولے۔یہ فارمولا ریاضی کی زبان میں اس سچ کا اظہار ہے کہ مادہ حرارت اور بجلی کی طرح توانائی ہی کی ایک صورت ہے. پھر ایسے آلات بنے جو ایٹم جیسے چھوٹے ذرے کو توڑ کر بیش بہا توانائی پیدا کرسکتے ہیں۔ آج دنیا میں پیدا کی جانے والی تیرہ فی صد توانائی اسی فارمولے ہی کا فیضان ہے۔ بد قسمتی سے یہ ایٹم بم کی ایجاد کا سبب بھی ہے۔ یانی آپا نے برفی کا ٹکڑا پلیٹ میں ڈالا اور بولیں۔ آئنسٹائن انیس سو نو میں زیورک یونیورسٹی کا پروفیسر بنا کچھ ہی برس بعد پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ انیس سو انیس میں اس کی تھیوری آف ریلیٹوٹی نے عالمی شہرت حاصل کر لی۔ سائنسی رسالوں میں اس کاکام سراہا گیا اور انیس سو اکیس میں اسے نوبل انعام ملا۔ ابتر سیاسی صورت حال کے سبب انیس سو بتیس میں اس نے نازی جرمنی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا۔ امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی انیس سو تینتیس کے بعد سے اس کا مستقل ٹھکانہ رہی۔ ۔انیس سو انتالیس میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔تو امریکی صدرروزولٹ کو اپنے خط میں اس نے ایٹم بم بنانے پر قائل کیا کہ کہیں نازی جرمنی یہ مہلک ہتھیارپہلے نہ حاصل کرلے۔ یاد رہے کہ یہ آئنسٹائن ہی تھا جس نے اقوام متحدہ برائے امن کی تجویز سب سے پہلے پیش کی تھی۔ وہ اپنی آخری سانسوں تک یونیفائڈ فیلڈ تھیوری پر کام کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہوسکا اور انیس سو پچپن میں چھیتر سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا ۔۔خود اپنے الفاظ میں وہ ایک ایسا فنکار تھا جوتخلیقی تصور کی آزادی سے لطف اندوز ہوسکا۔۔۔۔۔جاری ہے