فاطمہ الفہری: ہزار سال سے قایم یونیورسٹی کی بانی
شارق علی
ویلیوورسٹی
اپنے وقت سے آگے کا خواب
نویں صدی میں، جب تعلیم صرف امرا کے لیے تھی اور یونیورسٹیاں موجود نہیں تھیں، ایک مسلمان عورت نے ایسا خواب دیکھا جس نے تاریخ بدل دی۔ وہ عورت فاطمہ الفہری تھیں، جنہوں نے مراکش کے شہر فیض میں دنیا کی پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی—جو آج بھی قائم ہے۔
تیونس سے مراکش تک کا سفر
800 عیسوی کے آس پاس قیروان (تیونس) میں پیدا ہونے والی فاطمہ ایک مالدار تاجر خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس وقت کی دیگر لڑکیوں کے برعکس، انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جب ان کا خاندان مراکش کے شہر فیض منتقل ہوا، جو علم و ثقافت کا مرکز بنتا جا رہا تھا، تو فاطمہ نے وہاں ایک علمی ادارے کی ضرورت محسوس کی اور اس سے قائم کرنے کا خواب دیکھا۔
القروین یونیورسٹی کی بنیاد
والد کی وفات کے بعد، وراثت میں ملنے والی کثیر دولت کو فاطمہ نے عیش و آرام پر خرچ کرنے کے بجائے ایک پائیدار علمی مرکز کی تعمیر میں لگا دیا۔ 859 عیسوی میں، رمضان کے مہینے میں، انہوں نے القروین یونیورسٹی کی بنیاد رکھی اور اس کی تعمیر کے ہر پہلو کی خود نگرانی کی۔ یہ ادارہ پہلے ایک مسجد تھا، لیکن جلد ہی یہ ریاضی، فلکیات، فلسفہ اور طب جیسے علوم کا مرکز بن گیا—یورپ کی یونیورسٹیوں کے قیام سے کئی صدیوں پہلے۔
علم و دانش کا مرکز
القروین یونیورسٹی میں دنیا بھر کے اسکالرز آتے رہے۔ عظیم مفکر ابن خلدون (سوشیالوجی کے بانی) اور ابن رشد (مشہور فلسفی) نے یہاں تعلیم حاصل کی یا درس دیا۔ یورپی اسکالر جیراڈ آف کریمونا جیسے لوگ عربی کتابوں کے لاطینی تراجم کے لیے فیض کا رخ کرتے تھے، یوں اسلامی علوم کو یورپ تک پہنچایا گیا۔
ایک لازوال ورثہ
اگرچہ بعض مؤرخین یونیورسٹی کے اصل بانی کے نام پر بحث کرتے ہیں، لیکن فاطمہ الفہری کا اس یونیورسٹی کے قیام میں بھرپور کردار مسلمہ ہے۔ آج، 1000 سال سے زیادہ گزرنے کے باوجود، القروین یونیورسٹی دنیا کی سب سے قدیم اور مسلسل چلنے والی یونیورسٹی کے طور پر قائم ہے، جسے یونیسکو اور گنیز ورلڈ ریکارڈز نے تسلیم کیا ہے۔
یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ تعلیم وہ تحفہ ہے جو ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ فاطمہ الفہری نے ثابت کیا کہ علم کی طاقت مستقبل کو بدل سکتی ہے۔