Trafficking of Africans by the major European countries for about 350 years is a crime against humanity. This story is about greed and cruelty, but also about the will to survive and to be free.
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
غلام تجارت، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چودھویں قسط، شارق علی
انکل کی ملازمہ نصیبن کا باپ قرض کے بدلے بوڑھے زمیندار سے اس کی شادی پر راضی ہوا تو یانی آپا کا غصہ قابل دید تھا۔ اس شام ہمت کر کے میں نے کہا۔ شادی تو سب کی ہونی ہی ہوتی ہے، نصیبن کی شادی میں کیا حرج ہے؟ کہنے لگیں یہ شادی نہیں غلام تجارت ہے ممدو۔ کوئی با ضمیر ایسا ظلم برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے گفتگو کو طول دیا۔ غلام تجارت کیا ہوتی ہے یانی آپا؟ کہنے لگیں۔ یوں تو یہ ظلم آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے، لیکن منظم طور پر سیاہ فام افریقی غلاموں کو امریکہ لے جاکر فروخت کرنا پندرھویں صدی میں پرتگالیوں اور کچھ ہسپانویوں نے شروع کیا تھا۔ برطانوی تاجر سولہویں صدی میں اس مذموم تجارت میں شامل ہوئے اور پھر اسے عروج پر پہنچا کر سب سے زیادہ منافع کمایا۔ اٹھارہویں صدی تک ساٹھ لاکھ افریقی امریکہ میں بیچے گئے اور تقریبا تیس لاکھ نے راستے میں دم توڑ دیا۔ کم از کم ہر تیسرے غلام کی تجارت کے ذمہ دار برطانوی تاجرتھے۔ وہ برطانیہ سے اسلحہ اور برانڈ ی جہازوں پر لادتے اور افریقی ملکوں جیسے انگولا اور کونگو وغیرہ میں مقامی حکمرانوں اور تاجروں کو بیچ کر ان کے سیاسی مخالفین، قیدی اور بعض اوقات گائوں اور دیہاتوں سے سیاہ فام معصوموں کو قید کر کے غلام بنا لیتے۔ پھر انہیں سینکڑوں میل پیدل چلا کر بندرگاہوں کی ان جیلوں تک لاتے جنہیں وہ فیکٹریاں کہتے تھے۔ پھر ان بے گناہ لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح چار مربع فٹ کے پنجروں میں جانوروں سے بھی بد تر حالت میں امریکہ لے جایا جاتا۔ سات ہفتوں کے اس سفر میں تقریبا پندرہ فی صد غلام بھوک یا بیماری یا فرار ہونے کی کوشش میں دم توڑ دیتے۔ امریکہ میں وہ ان غلاموں کو شراب اور شکر کے عوض فروخت کرتے اور یہ مال برطانیہ لا کر خوب دولت کماتے۔ یہ سچ ہے کہ اس ظالمانہ کاروبار نے برطانوی معیشت کو مضبوط کیا تھا۔ ادھر امریکہ میں ان غلاموں کے ستھ ظالمانہ سلوک کیا جاتا۔ فیصل کاٹنے کے موسم میں اڑتالیس گھنٹے مسلسل کام کی مشقت لی جاتی۔ بالآخر کچھ مفرور اور باغی غلاموں نے انگلستان میں افریقہ کے بیٹے نامی تنظیم بنائی اور اس ظلم کے خلاف خطوط لکھنے کی مہم چلا کر انسانی ضمیر کو جھنجھوڑا۔ غلام تجارت کے خلاف پہلے مظاہرے کی قیادت ٹیکی نے کی تھی جو خود ایک غلام رہ چکا تھا۔عوامی رائے ہموار ہونا شروع ہوئی تو سترہ سو ستاسی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ پھر برطانوی تاریخ کے سب سے بڑے عوامی مظاہروں نے برطانوی پارلیمنٹ کو غلام تجارت پر پابندی لگانے پر مجبور کردیا۔ پھر امریکہ میں بھی اس کاروبار پر پابندی لگی اور یوں ساڑھے چار سو سال تک جاری رہنے والایہ گھناونا کاروبار ختم ہوا۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔