Knowledge philanthropists are those who wish to share their knowledge, skills, and experience for the benefit of humanity without any expectations for the reward. These are the ones who are making this world a better place to live
علمی سخاوت ، فکر انگیز انشے ، شارق عل
علم اور دانشمندی حاصل کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم اپنے اردگرد کی دُنیا کو سمجھ لینے کے بعد اپنے دل میں موجود خوف اور تعصب سے چھٹکارا پا لیتے ہیں . اگلا قدم ہے اپنی دانشمندی ، علم اور مہارت سے انسانیت کو فائدہ پوھنچانا . تحریر ، تقریر یا عملی مہارت دوسروں کو سکھانے کے ذریعے سے انسانیت کی خدمت علمی سخاوت یا نالج فلانتھروپی کہلا تی ہے . اس سے مراد اپنی رائے یا نظریات کو دوسروں پر تھوپنا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے دوسروں کو اپنے علم میں اس طرح شریک کر لینا کہ یہ دُنیا ایک بہتر دُنیا بن سکے. یہ گویا ایک طرح کا تحفہ دینا ہے تاکہ وصول کرنے والے عام لوگ خود اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچ سکیں اور درکار مہارت حاصل کرسکیں۔ زندگی کے تجربات سے بھرپو لطف اٹھا سکیں اور اپنے مسائل سے بہترطور پر نبرد آزما ہوسکیں. ثقافتی، مذہبی اور سیاسی اختلافات اور زندگی کی بدلتی ہوئی صورت حال کو کشادہ دلی کے ساتھ قبول کرسکیں۔ علمی سخاوت کے لیے خلوصِ نیت انتہائی اہم ہے۔ اگر ہم شہرت، سماجی اہمیت یا دولت کے حصول کے لیے ایسا کرتے ہیں تو بہت جلد یہ بات کھل کرسب کے سامنے آ جاتی ہے . ایسا کرنا علمی خود غرضی کہلاے گی ۔ علمی سخاوت تو محبت کرنے کا عمل ہے۔ صلے اور ستائش سے بلند ہوکر محبت کرنے کا عمل. اس کا واحد مقصد دوسروں کی زندگی کو بہتر بنانا ہے. اُن کے لیے آسانی پیدا کرنا۔ لیکن یہ قدرت کا انعام ہے کہ ایسا کرنے والے کو اس عمل سے طمانیت اور تسکین حاصل ہوتی ہے . مزے کی بات یہ ہے کہ صرف عالم یا دانشور ہی نہیں بلکہ ہم میں سے ہر انسان علمی سخاوت کے ذریعے انسانیت کی خدمت کر سکتا ہے. پچھلے دنوں میرے گھر کا نلکا لیک ہونے لگا ۔ میں نے یو ٹیوب پر کسی پلمبر کی بنائی ہوئی ویڈیو دیکھ کر چند منٹوں میں ہی اس مسلے کو حل کر لیا . یوں تو دُنیا کی تاریخ میں ایسے سخی لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں اور یہی لوگ انسانی ترقی کا بنیادی سبب بھی تھے ۔ لیکن آج کے اس معلوماتی انقلاب کے دور میں علمی سخاوت اپنا عروج دیکھ رہی ہے . ہمیں اپنے تجربے اور مہارت کے ذریعے سے دوسروں کا ہاتھ ضرور تھامنا چاہیے . ہم سوشل میڈیا جیسے فیس بک یا یوٹیوب کی مدد سے یہ کام بہت آسانی سے کر سکتے ہیں . یاد رہے کے کی جانے والی بات کارآمد ہو اور پیشکش کا انداز دلچسپ تاکے لوگ متوجہ ہو سکیں. کسی خاص موضوع پراظہار خیال سے پہلے اپنی علمی قابلیت یا تجربے کے مناسب ذکر میں کوئی حرج نہیں . لیکن یاد رکھیے علم سے میری مراد ہے کار آمد معلومات اور حقائق کا بیان. ذاتی رائے یا نظریے کا بیان علم کے زمرے میں نہیں آتا ۔ علم روز مرہ زندگی کے مسائل سے متعلق بھی ہوسکتا ہے اور فلسفہ ، سائنس ، شاعری، ادب اورموسیقی کے حوالے سے بھی. لیکن اسکی بنیادی شرط ہے دوسروں کے لئے اس میں فائدہ مندی کے پہلو کا موجود ہونا . دوسروں تک معلومات پہنچانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے معیار پر گہری نظر ڈال لیں ۔ بات کتنی کار آمد ہے؟ جو پیرایۂ اظہار اختیار کیا گیا ہے۔ کیا وہ دلچسپ، عام فہم اور مہذب ہے یا نہیں ؟ جس ذریعے سے ہم یہ بات پہنچا رہے ہیں کیا وہ متعلقہ لوگوں تک رسائی حاصل کر سکے گا ؟ کیا کہی گئی بات مستند ہے؟ کہیں یہ بات منفی اثرات تو پیدا نہیں کرے گی ؟ علمی سخاوت کا بنیادی مقصد ہے دانشمندی کا فروغ . اس لئے کہی گئی یا لکھی گئی بات کے ہر پہلو کوٹھوک بجا کر اس پر غور و فکر کرلینا ، اس کے اثرات کی پیش بندی کرلینا بے حد ضروری ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اپنے خوف، اپنے تعصبات اور منفی نظریات کو علم سمجھ کر دوسروں تک پوھنچانے لگیں. لیکن دوسری جانب مکمل خلوص اور دیانت داری سے کوئی کوشش کرنے کے بعد آپ اس بات سے نیاز ہوجائیں کہ دوسرے لوگ آپ کی اس سخاوت کے بارے میں کیا رائے رکھیں گے۔ اپنی مہارت ، علم، تجربے اور مشاہدے میں دوسرے لوگوں کو شریک کرنے اور انھیں فائدہ پوھنچانے سے بالکل نہ جھجھکیے ، علمی سخاوت اختیار کیجیے اور اپنا خیال رکھیے —– ویلیوورسٹی