Shahrazade having devised a scheme to save herself and others, insists that her father give her in marriage to the king Sheheryar. See what happens next in this story
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
شہرزاد، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، بارہواں انشا، شارق علی
نیرنگ آباد میں انتخابات کی گہماگہمی تھی۔ ٹی وی چینلز پر جلسوں کی براہ راست نشریات، تبصرے، مباحثے۔ رات کے کھانے کے دوران ٹی وی پر لوگوں کا جم غفیر دیکھا تو دادا جی نے کہا۔ نا اہل حکمرانوں کو بار بار منتخب کرنے والوں سے بھلا کسے ہمدردی ہوسکتی ہے۔ کھانے کے بعد جب میں اور یانی آپا لان میں رات کی رانی کی خوشبو کا ہاتھ تھامے ٹہل رہے تھے تو میں نے پوچھا۔ عوام اس قدر بے وقوف کیوں ہوتی ہے؟ وہ بولیں۔عوام تو شہریار ہوتی ہے ممدو۔ روز مرہ کی بے وفائی سے زخمی۔حالات کی جادو گری کے سنگ دل حصار میں قید۔ اگر وہ خوش قسمت ہو تواسے شہرزاد مل جاتی ہے جو کہانی سنا کر دو بارہ محبت پر اور اپنے روز و شب سنوارنے پر قائل کرلیتی ہے ۔یہ عوام بدقسمت ہے شا ید کہ اسے ہر بار ان حکمرانوں کی دل فریب جھوٹی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں ۔یہ شہریار اور شہرزاد کون تھے یانی آپا؟ میں نے پوچھا۔ کہنے لگیں عباسیوں کا دور حکومت تھا، شاید آٹھ سو پچاس ص ع کے لگ بھگ، جب ایک فارسی مصنف نے کہانیوں کا ایک مجموعہ مرتب کیا تھا جسے عرف عام میں الف لیلہٰ کی ایک ہزارایک راتیں یا اریبین نائٹس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں ایک ساسانی بادشاہ شہریار نے ظالمانہ روش اپنا رکھی تھی۔وہ ہر رات جس خوبصورت حسینہ سے شادی کرتا اسے صبح ہونے سے پہلی قتل کروادیتا تھا۔ کچھ کہتے تھے اس کی وجہ ملکہ کی بے وفائی کا انتقام تھی، اور کچھ کے خیال میں وہ کسی ظالم جادو گر کے کیے ہوئے سحر میں گرفتار تھا۔ اس کے وزیر کی بیٹی شہرزاد، جو شاعری، فلسفہ، تاریخ اور ادب پر عبور رکھتی تھی، نے ایک دن یہ ظالمانہ روش ختم کرنے کی ٹھان لی اور شہریار کی دہلن بننے کا فیصلہ کرلیا۔ وزیر بے حدپریشان ہوا، لیکن شہرزاد بہت پراعتماد تھی ۔شادی کی رات شہرزاد نے شہریار کو کہانی سنانے کی پیش کش کی ۔کہانی شروع ہوئی تو شہریار اس کہانی کے پیچ و خم سے مسحور ہو کر رہ گیا۔ صبح کی پہلی کرن پھوٹی تو کہانی ایک دلچسپ موڑ پر تھی ۔شہرزاد نے کہانی روک کر شہریارکوصبح ہونے کا احساس دلایا۔ لیکن شہریار نے شہرزاد کا قتل اگلی رات تک کے لیے ملتوی کردیا۔ اگلی رات شہرزاد نے کہانی دوبارہ شروع کی، اور پھر یہ کہانی اس سے اگلی، اور پھر اگلی حتٰی کہ ایک ہزار ایک راتوں تک جاری رہی۔ آخری رات شہرزاد نے کہانی سنانے سے انکار کر کے قتل ہونے کی پیش کش کی ۔شہریار اس دوران شہرزاد کی محبت میں گرفتار ہوچکا تھا۔ اس نے شہرزاد کو اپنی ملکہ بنالیا اور یوں وہ ملک اس ظالمانہ روش سے آزاد ہوا۔ الہ دین کا چراغ، سند باد جہازی اور علی بابا چالیس چور ان میں سے چند کہانیاں ہیں جو شہرزاد نے شہریار کو سنائیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے