Skip to content
Home » Blog » شاہ جلال یمنی

شاہ جلال یمنی

  • by

شاہ جلال یمنی

دسواں انشاء

تحریر: شارق علی
ویلیوورسٹی

کانفرنس کے انتظامات میں اتنا مصروف رہا کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ جب مقامی منتظمین نے ڈنر تیار ہونے کی اطلاع دی تو بھوک کا احساس ہوا۔ ڈائننگ ہال میں مقامی طور پر تیار کردہ، کم مصالحوں والے مزیدار کھانوں کا لطف اٹھایا، جن میں دال، چاول، سبزی، مچھلی اور مٹن قورمہ شامل تھے۔ خوش گپیوں کے دوران مزے سے کھانا کھایا، اور اس دوران بعد میں آنے والے کچھ مزید دوست بھی ساتھ شامل ہوگئے۔ ان میں امریکہ سے مائیکل پیک، کینیڈا سے بوعلی، نائجیریا سے رچرڈ، گھانا سے اپوکو، برطانیہ سے شان فالڈر اور افغانستان سے غفار شامل تھے۔

پورے دن کانفرنس میں شریک ہونے والے مہمانوں کی آمد جاری رہی تھی اور ان سب سے اس ڈنر پر ملاقات ہوئی۔ کھانے کے بعد چائے کے دوران، اگلے دن کے ایجنڈا کو حتمی شکل دی گئی۔ پھر سب اپنے اپنے کاٹیجز اور کمروں میں سونے کے لیے چلے گئے۔ میں جب کاٹج نمبر تین کی طرف تعمیر کی گئی پگڈنڈی پر چلا تو بنگلہ دیش کی دلکش رات اور نرم ہوا نے میرا ہاتھ تھام لیا۔

بنگلہ دیش کے لوگوں کا رہن سہن سادہ اور قدرتی ماحول کے بہت قریب ہے۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ کسان ہیں، جن کی زندگی زراعت اور کاشتکاری کے گرد گھومتی ہے۔ شہروں میں لوگ جدید طرز زندگی اپنائے ہوئے ہیں، مگر پھر بھی اپنی روایتی تہذیب و تمدن سے جڑے رہتے ہیں۔ گھروں کی سادہ لیکن رنگ برنگی سجاوٹ، اور بنگالی دستکاری کی جھلک ان کے طرز زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔

رابندر ناتھ ٹیگور، بنگالی شاعر اور موسیقار، نے بنگالی شاعری اور موسیقی کو ایک نئی بلندی عطا کی، اور ان کی روحانی و ثقافتی چھاپ مجھے یہاں کے معاشرتی ماحول میں گہری دکھائی دی۔ جب کاٹج پہنچا تو تھکن اتنی زیادہ تھی کہ بستر تک پہنچتے ہی نیند نے آ گھیرا۔

اگلے دن کانفرنس کی مصروفیات جاری رہیں، مقالات بہت عمدہ تھے اور شام کو ہونے والی ورک شاپ کو ٹرینی ڈاکٹروں نے بہت سراہا۔ رات کو ایک موسیقی کی محفل کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں سلہٹ کے مقامی صوفی گائیکوں نے حضرت شاہ جلال کے کلام پیش کیے۔

شاہ جلال کا مزار سلہٹ میں واقع ہے، اور یہ صوفی بزرگ حضرت شاہ جلال الدین یمنی کی آخری آرام گاہ ہے۔ وہ تیرہویں صدی میں یمن سے بنگال آئے اور اپنے حسنِ عمل اور کردار سے روحانی عروج پایا۔

شاہ جلال کے ساتھ ان کے تین سو ساٹھ اولیاء بھی بنگال آئے، جنہوں نے وہاں اسلامی تبلیغ کی۔ ان کی سادگی اور صبر نے مقامی لوگوں کے دل جیت لیے۔ آج بھی ان کا مزار عقیدت مندوں اور زائرین کے لیے روحانی زیارت کا مرکز بنا ہوا ہے۔

موسیقی کی محفل حضرت شاہ جلال کے نام معنون تھی، اور ہم نے اس روحانی محفل کا خوب لطف اٹھایا۔ اس موقع پر بنگلہ دیش کی مشہور گلوکارہ، رونا لیلیٰ کی یادیں تازہ ہو گئیں، جنہوں نے پاکستان اور انڈیا میں بھی اپنی گائیکی سے مقبولیت حاصل کی۔ ان کی آواز اور اندازِ گائیکی لوگوں کو مسحور کر دیتا تھا۔ 1970 کی دہائی میں ان کا گانا “دمادم مست قلندر” آج بھی مقبول ہے۔

رونا لیلیٰ نے اردو، بنگالی، اور پنجابی سمیت کئی زبانوں میں گانے گائے اور ان کی گائیکی میں کلاسیکی موسیقی کی جھلک بھی ملتی ہے۔ ان کی منفرد آواز اور گائیکی کا انمول انداز آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔۔۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *