شاہین بھائی
پانچویں قسط
شارق علی
ویلیو ورسٹی
” اس قسط میں بنگلہ دیش کے دیہی علاقوں کا لطف اٹھایے۔ سلہٹ کے قریب واقع چائے کے باغات کی جانب ہمیں لے جانے والے شاہین بھائی ایک بہترین ڈرائیور تھے، اس میں کوئی شک نہیں۔”
” Enjoy the rural Bangladesh on our way to tea gardens near Sylhut. Shaheen Bhai was a marvellous driver, no doubt.”
وہ ٹویوٹا ہائی ایس سے ٹیک لگائے مزے سے سگریٹ پی رہے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے ہمیں آتے دیکھا، فوراً سگریٹ زمین پر دے ماری اور پیر سے اسے مسل دیا۔ پان سے سرخ دانتوں کی بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے پہلے تو ہمارے دل جیتے، پھر فوراً مستعدی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ ہم ڈھاکہ سے سلہٹ کے قریب واقع چائے کے باغات کے لیے مشہور قصبے سری مونگول کی جانب چار سے پانچ گھنٹے کی بائی روڈ مسافت کے لیے روانہ ہوئے۔ شاہین بھائی ہماری وین کے ڈرائیور تھے۔ مجھے ان کے بالکل برابر کی سیٹ پر بیٹھنے کا موقع ملا۔ ٹام، روتھ، منیرہ، ایوب علی اور پروفیسر سالک سمیت دیگر دوست ہماری وین کی پچھلی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ باقی دوست پیچھے کھڑی دوسری وین میں سوار ہو گئے۔
سب سے پہلے دونوں گاڑیاں گلشن میں واقع ایسڈ سروائیورز فاؤنڈیشن کے دفتر پہنچیں، جہاں نیپال کے مشہور پلاسٹک سرجن شنکر مان رائے اور بنگلہ دیش کے عالمی شہرت یافتہ ایپیڈیمیولوجسٹ اور ریسرچر ڈاکٹر مشرقی ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہم نے اتر کر پانچ دس منٹ ان سے ملاقات کی۔ ان دونوں حضرات سے ای میل کے ذریعے رابطہ اور ان کے شہرت یافتہ کام سے ریسرچ جرنلز کے ذریعے واقفیت تو بہت پرانی تھی لیکن براہ راست ملاقات پہلی بار ہو رہی تھی۔ دونوں کو بے حد بااخلاق، توقع سے بڑھ کر کم عمر اور خوشگوار پایا۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ لوگ اتنی مختصر مدت میں بھی ایک دوسرے سے اس قدر قریب آ سکتے ہیں۔ ہم اس انتہای خوشگوار تجربے سے گزرے۔
گاڑیوں میں دوبارہ سوار ہونے لگے تو منیرہ نے مجھے بتایا کہ پروفیسر سالک صاحب اس راستے کے ماہر ہیں اور اکثر یہاں سفر کرتے رہتے ہیں۔ میں نے فوراً فرمائش کی کہ اگر راستے میں کہیں تازہ ناریل کا پانی دستیاب ہو جائے تو کیا ہی بات ہو۔ پروفیسر سالک نے بخوشی اس بات کی حامی بھر لی۔
پھر یہ دونوں وین آگے پیچھے شہر کے مضافات سے گزرنے لگیں۔ مرکزی شہر کے مقابلے میں یہاں رش تو کچھ کم تھا لیکن سڑک پر رکشوں کی بہتات تھی۔ سڑک کے دونوں جانب کم اونچائی والے کھمبوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے بجلی کے نیچے لٹکتے تاروں کے سلسلے آبادی کی کثرت اور حکومت کی کام چلاؤ پالیسی کی گواہی دے رہے تھے۔ پھر ہماری گاڑیاں دو ایک چھوٹے بڑے پل عبور کر کے شہر کی حدود سے باہر نکل کر دیہاتی علاقوں کے منظر کا حصہ بن گئیں۔
سڑک کے دونوں جانب نسبتا کم اونچے لیکن سرسبز و شاداب درختوں کے سلسلے تھے اور ان کے پیچھے دور تک پھیلے کھڑی فصلوں کے لہلہاتے میدان۔ کہیں کہیں کام کرتے ہوئے دہقان مرد اور عورتیں بھی نظر آتی تھیں۔ گھاس کے میدانوں کے درمیان جا بجا کھڑے مردہ پانیوں کے چھوٹے بڑے تالاب بھی دکھائی دے رہے تھے، بعض تالاب اتنے بڑے تھے کہ جیسے چھوٹی جھیلیں ہوں۔ کہیں تیرتی اکا دکا لکڑی کی کشتیاں بھی دکھائی دے جاتی تھیں۔ سارا منظر ایسا تھا جیسے ٹیگور کی کوئی نظم زندہ ہو گئی ہو۔
شاہین بھائی کی مسکراہٹ تو لاجواب تھی ہی، لیکن ان کی ڈرائیونگ بھی کم نہ تھی۔ کئی مشکل مواقع پر ان کی مہارت کا بخوبی مظاہرہ ہوا۔ ان کے بردبار دکھنے کی وجہ غالباً منہ میں پان اور کمزور اردو تھی، لیکن کچھ نہ کچھ تفصیل میں نے بھی ان سے اگلوا ہی لی۔ وہ سلہٹ کے رہنے والے تھے اور حضرت شاہ جلال کے مرید بھی۔ پڑھائی میں دل نہ لگا لیکن کم مدت میں انہوں نے رکشہ سے وین کا مالک بننے تک خاصا کامیاب سفر طے کیا تھا۔
کوئی دو گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد پروفیسر سالک اور شاہین بھائی کے درمیان بنگالی مکالمے کے نتیجے میں ہم سڑک سے اتر کر ایک چھوٹے سے گاؤں کی حدود میں داخل ہو گئے۔ وین سوکھی لکڑیوں کی کھپچی والی دیواروں اور سوکھی گھاس کی چھت والی جھونپڑی نما دوکان کے پیچھے کھلے میدان کے ایک کونے میں جا کر پارک ہو گئی۔ سبز ناریلوں سے لبالب بھری اس دکان کے سامنے کھڑا دکاندار اس قدر خوش تھا جیسے ابھی اس کی لاٹری نکلی ہو۔ دوسری جانب مٹیالے میدان میں کرکٹ کھیلتے کچھ بچے، جنہوں نے کچھ حاضر اور کچھ غائب لباس پہن رکھے تھے، دو ٹیمیں بنا کر کھیل میں مصروف
۔…جاری ہے