Skip to content
Home » Blog » شالاط اور مجید امجد: ہجرِ مسلسل

شالاط اور مجید امجد: ہجرِ مسلسل

  • by

شالاط اور مجید امجد: ہجرِ مسلسل

شارق علی

ویلیوورسٹی

( ممکن ہے شالاط کا اصل نام شارلٹ ہو)

اردو نظم کے عظیم شاعر مجید امجد اپنی منفرد حساسیت، آفاقیت، اور کرب انگیز تجربات کے باعث اردو ادب میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں زندگی کی معنویت تک نارسائی، محبت کی بے بسی، اور وقت کی سفاکی کا ایسا بیان ملتا ہے جو قاری کو گہری سوچ میں ڈال دیتا ہے۔ ان کی فلسفیانہ مباحث پر غور و فکر سے بھری زندگی اور شاعری میں ایک ایسا رومانوی پہلو بھی موجود ہے، جسے جان کر ہم ان کے اشعار کو مزید شدت اور گہرائی سے محسوس کر سکتے ہیں۔

یہ قصہ ایک جرمن خاتون، شالاط، سے جڑا ہوا ہے، جو 1958 میں مجید امجد کی زندگی میں مختصر مگر دیرپا محبت کی صورت میں داخل ہوئی۔

محبت کی مختصر کہانی

شالاط ایک جرمن سیاح تھیں، جو عالمی ادب، فنونِ لطیفہ، اور آثارِ قدیمہ میں گہری دلچسپی رکھتی تھیں۔ 1958 میں وہ ساہیوال کے قریب واقع ہڑپہ کے کھنڈرات دیکھنے آئیں، جہاں ان کی ملاقات مجید امجد سے ہوئی۔ شاعری سے لگاؤ رکھنے والی شالاط پر مجید امجد کی شاعری نے سحر طاری کر دیا۔ باہمی گفت و شنید بڑھ کر دوستی اور انسیت تک جا پہنچی، اور یوں دونوں کے درمیان ایک دلنشیں تعلق کا آغاز ہوا، جو رفتہ رفتہ محبت میں ڈھل گیا۔

یہ تعلق تین مہینوں (83 دن) پر محیط تھا، مگر اس تمام عرصے میں وہ ایک دوسرے کے قریب ہو کر بھی اپنی دلی کیفیات کا اظہار نہ کر سکے۔ شاید یہ ثقافتی فرق تھا، یا شاید مجید امجد کی فطری جھجک آڑے آتی رہی۔ مگر جب وقتِ رخصت آیا، تو جذبات کے اس خاموش طوفان نے مجید امجد کو مجبور کر دیا کہ وہ شالاط کو کوئٹہ تک رخصت کرنے اس کے ساتھ جائیں۔

اظہارِ محبت وہاں بھی نہ ہو سکا۔

مجید امجد نے اس کے لیے چوڑیاں خریدیں، مگر انہیں دینے کی ہمت نہ کر پائے۔ واپسی پر وہ چوڑیاں اپنے دوست صابر کنجاہی کے حوالے کر دیں کہ وہ اپنی منگیتر کو دے دے۔

شالاط کی جدائی کا صدمہ انہیں اپنے اندر دور تک محسوس ہوا۔

اسی جدائی سے جڑے احساسات ان کی شاعری میں اداس کیفیتوں کی صورت بار بار ابھرتے رہے۔

”کوئٹہ تک“ – جدائی کا نوحہ

22 نومبر 1958 کو شالاط کی جدائی کے بعد مجید امجد نے اپنی مشہور نظم ”کوئٹہ تک“ لکھی، جو ایک حساس شاعر کے دل کے درد کو بیان کرتی ہے:

صدیوں سے راہ تکتی ہوئی گھاٹیوں میں تم

اِک لمحہ آ کے ہنس گئے، میں ڈھونڈتا پھرا

ان وادیوں میں برف کے چھینٹوں کے ساتھ ساتھ

ہر سو شرر برس گئے، میں ڈھونڈتا پھرا

تم پھر نہ آ سکو گے، بتانا تو تھا مجھے

تم دور جا کے بس گئے، میں ڈھونڈھتا پھرا

یہ وہ الفاظ ہیں جن میں محبت کی نارسائی، بے بسی، اور وقت کی بے رحمی یکجا ہو گئی ہے۔

مجید امجد کی کئی نظمیں اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ بعض محبتیں مکمل اظہار کے بغیر بھی ہمیشہ کے لیے دلوں میں بسی رہتی ہیں۔

”میونخ“ – کرسمس کی رات

شالاط کے رخصت ہو جانے کے بعد، مجید امجد نے ایک اور شہرہ آفاق نظم ”میونخ“ لکھی۔

اس نظم میں انہوں نے نہ صرف شالاط کی بتائی ہوئی باتوں کو حیرت انگیز طور پر نظم کیا ہے، بلکہ کچھ حقیقی تفصیلات بھی قلم بند کی ہیں۔ بیان اتنا شفاف ہے گویا وہ خود بھی اسی ثقافت کا ایک حصہ ہوں اور وہاں موجود ہوں۔

ڈاکٹر وزیر آغا اپنی کتاب ”مجید امجد کی داستانِ محبت“ میں لکھتے ہیں:

“مجید امجد نے اپنی مشہور نظم ‘میونخ’ 25 دسمبر 1958ء، یعنی کرسمس کے دن لکھی۔ اس نظم میں پہلی اور آخری بار شالاط کا نام لکھا گیا ہے۔ نظم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ملایا اور چین میں بھی گھومتی رہی۔ وہ پاکستان سے ہوتے ہوئے، کرسمس کے روز میونخ پہنچی، جہاں اس کی بوڑھی ماں دس برس سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔”

یہ نظم محبت کی نارسائی، مسافتوں کی تلخی، اور ایک بیٹی کی اپنی ماں سے ملاقات کا احاطہ کرتی ہے۔

”میونخ“ (اقتباس)

آج کرسمس ہے

شہرِ میونخ میں آج کرسمس ہے

رودبارِ عسار کے پُل پر

جس جگہ برف کی سِلوں کی سڑک

فان کاچے کی سمت مڑتی ہے

قافلے قہقہوں کے اترے ہیں

آج اس قریۂ شراب کے لوگ

جن کے رخ پر ہزیمتوں کا عرق

جن کے دل میں جراحتوں کی خراش

ایک عزمِ نشاط جو کے ساتھ

امڈ آئے ہیں مست راہوں پر

باہیں باہوں میں، ہونٹ ہونٹوں پر!

برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں

کوئے میریں کے اک گھروندے میں

ایک بوڑھی، اداس ماں کے لیے

پھول اک طاقچے پہ ہنستے ہیں

گرم انگیٹھی کے عکس لرزاں سے

آگ اک آئینے میں جلتی ہے!

ایک دستک ہے! کون آیا ہے!

زرد کمرے کے گوشے گوشے میں

جورِ ماضی کا سایہ مصلوب

آخری سانس لینے لگتا ہے!

ماں کے چہرے کی ہر عمیق شکن

ایک حیران مسکراہٹ کے

دلنشیں زاویوں میں ڈھلتی ہے

“میری شالاط، اے مری شالاط”

“اے میں قربان، تم آ گئیں بیٹی!”

اختتامیہ: محبت، ادھورا پن اور شاعری

شاید یہ نظم لکھتے وقت مجید امجد کو یہ احساس ہوا ہو کہ محبت تکمیل نہیں بلکہ ادھورا پن ہے، تاکہ زندگی بھر دل کے کسی گوشے میں ایک جلتا چراغ دمکتا رہے۔

مجید امجد کی شاعری میں وقت کی قید اور انسانی بے بسی کا گہرا اظہار ملتا ہے:

برس گیا بہ خراباتِ آرزو، ترا غم

قدح قدح تری یادیں، سبو سبو ترا غم

شالاط کے ساتھ گزارے گئے تین مہینے، اور اس کے بعد کی مستقل جدائی نے ان کی شاعری کو ایک منفرد رنگ دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *