British took over Egypt in 1875 to control 120 miles long Suez canal. This was an economic and military lifeline for threatened British Raj in India after 1857 uprising
سویز کنال ، سامراج ، بارہواں اور آخری انشا ، ویلیوورسٹی ، شارق علی
پروف نے کھڑکی کا پردہ زرا سا کھول دیا اور بولے . ان دنوں پورے ہندوستان میں ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں مختلف شاندار عمارتیں بنائی گئیں . اس کے مجسمے چوک پر آویزاں کئے گئے اور اسے ایک ایسا کردار بنا کر پیش کیا گیا جیسے وہ کوئی دیوی ہو. عوام کی ماتا ہو. اسے ایمپریس آف انڈیا کا خطاب دیا گیا. برطانیہ میں تیار کیے گئے ملکہ وکٹوریہ کے پچاس مجسمے بحری جہازوں پر لاد کر ہندوستان لائے گئے اور مختلف شہروں کے مرکزی چوک میں انھیں ایستادہ کیا گیا تا کہ عوام انہیں دیکھ کر ملکہ سے اپنے رشتے کو قائم کر سکیں . لطف کی بات یہ کہ ان میں سے بیشتر مجسموں کی قیمت بھی مقامی راجہ مہاراجاؤں نے ادا کی. راجہ آف بڑودا نے لاکھوں روپے مالیت کا سنگ مرمر کا مجسمہ اپنے شہر میں نصب کروایا. ان مجسموں کا ہفتہ وار شیمپو کیا جاتا اور روزانہ ان کے چرنوں میں تازہ پھول رکھے جاتے . اس زمانے میں پوری دنیا میں برطانوی سلطنت کا قلب ہندوستان تھا. یہیں سے لوٹی دولت اور افرادی طاقت برطانوی فوجوں کو اس قابل بناتی تھی کہ وہ پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھ سکیں . میں نے کہا . اس تسلط کو برقرار رکھنا آسان تو نہ ہو گا ؟ بولے. برطانیہ میں چند ایسے دوررس دانشور بھی موجود تھے جو اس سارے نظام کو وقتی کامیابی اور پھر ایک دیرینہ زوال کا سبب سمجھتے تھے. ان کے سامنے رومنوں کے عروج و زوال کی مثال موجود تھی . کچھ نے تو اخلاقی بنیاد پر سامراجی نظام کی مخالفت بھی کی . لیکن بیشتر اسے مزید فروغ دینے کے لئے کوشاں رہے . اٹھارہ سو بیاسی کی ایک صبح مصر کے عوام پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ اپنے ملک میں اکیلے نہیں. برطانوی فوج تیزی سے ان کے دارالخلافہ کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے. مصر پر حملے کی وجہ انگریزوں کی ہندوستان پر گرفت کے بارے میں بے یقینی کی کیفیت تھی. وہ اپنی سلطنت کو دیگر علاقوں تک پھیلا کر ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے تھے . مصر پر حملے کے فورا بعد گو کہ انگریز نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ یہاں زیادہ دیر تک قیام نہ کریں گے لیکن وہ وہاں ستر برس تک قابض رہے. رمز نے پوچھا . مصر پر اچانک حملہ آخر کیوں؟ پروف بولے . اس کی بنیادی وجہ سویز کنال پر قابض ہو کر اپنی بحری طاقت کو مضبوط تر بنانا تھا تاکے بحری فاصلہ گھٹا کر برطانیہ کی ہندوستان پر گرفت مضبوط کی جا سکے . وہ ایک اور بغاوت کے خدشے سے پریشان تھے . مصر کے صحرا میں ایک سو بیس میل لمبی یہ نہر انگریز بحری جہازوں کے مختصر سفر کی وجہ سے ہندوستان پر قبضہ برقرار رکھنے کی ضمانت تھی . سویز کینال کی تعمیر کے بعد اس میں سے ہو کر گزرنے والے زیادہ تر بحری جہاز برطانوی تھے جو ہندوستان سے کپاس، چائے ، پٹسن اور ایسا بہت سا خام مال لے کر برطانیہ پہنچتے. جہاں برطانیہ کی فیکٹریوں میں اسے تیار شدہ مال میں تبدیل کر کے برطانوی عوام کی بیروزگاری کو کم کیا جاتا اور پھر یہ تیار شدہ مال مثلا کپڑے اور چائے وغیرہ کو دوبارہ ہندوستان پہنچا کر فروخت کیا جاتا. سویز کنال کے راستے ہی سے برطانوی فوج کو باآسانی ہندوستان میں بغاوت کچلنے کے لئے بھیجا جاسکتا تھا. سویز کینال کی اس قدر فوجی اور تجارتی اہمیت کی وجہ سے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ اس کے کناروں کو محفوظ رکھا جائے اور وہاں پر ابھرنے والی ہر قسم کی بغاوت کو وقت پڑنے پر کچل دیا جائے. سوفی بولی . مجموعی طور پر ہندوستان پاکستان وغیرہ کو اس سامراجیت سے کیا نقصان پوھنچا ؟ کہنے لگے . انگریزوں کی آمد سے قبل سترہویں صدی میں یہ خطہ دنیا کا امیر ترین ملک تھا. ایک ماہرانہ اندازے کے مطابق پوری دنیا کی جی ڈی پی میں اس کی شراکت چوبیس فیصد تھی. یہ اعداد و شمار مغربی معیشت دانوں ہی کے مرتب کردہ ہیں . یہ حقیقت ہے کے بعض ہندوستانی ریاستیں پورے برطانیہ سے زیادہ دولت رکھتی تھیں . یہاں کی زراعت ، دستکاری ، ململ، کپڑے اور فولاد کی صنعت بے مثل تھی . پھر انگریز دو سو سال اس پورے خطے کی جی بھر کر منظم لوٹ مار کر کے جب سن سنتالیس میں پاکستان ہندوستان کو آزادی دے کر واپس جاتا ہے تو اس علاقے کا جی ڈی پی صرف چار فیصد رہ جاتا ہے . نوے فیصد عوام غربت کی سطح سے نیچے ہوتی ہے اور عام آدمی کی اوسط زندگی صرف ستائیس برس کی….. اختتام ، ویلیوورسٹی ، شارق علی