کپڑے ، جوتے ، عزت، حج ، عمرہ سب رقم ہی سے تو ہوتا ہے
وہ سنی ہے تم نے . نوجوان نے بینک مینجر سے اپنے اکاونٹ میں ہر ہفتے ایک لاکھ روپے جما کروانے کا وعدہ کیا اور باقاعدگی سے ایسا کرتا بھی رہا تو مینیجر کو شک ہوا. اس نے پوچھا تم تو بیروزگار ہو یہ ہر ہفتے ایک لاکھ کہاں سے . نوجوان نے کہا شرط جیت کر. مینجر نے کہا شرط تو کبھی جیت ہے کبھی ہار. یہ ہر بار کی جیت کیسی. نوجوان بولا سوچی سمجھی شرط سے . چلو ایک لاکھ کی شرط کے اگلے ھفتہ تمھارے کان لکڑی کے ہو جایں گے. منجر نے شرط قبول کر لی . ہفتے بعد نوجوان ایک اور آدمی کے ساتھ مینجر کے پاس آیا منیجر نے بخوشی اپنا کان نوجوان کے سامنے کر دیا اور اس نے یہ کان اچھی طرح مروڑا ہی تھا کے ساتھ آیا اجنبی زمین پر گر کر بے ہوش ہو گیا. مینجر ے پوچھا اسے کیا ہوا . نوجوان بولا میں نے اس سے دولاکھ کی شرط لگائی تھی کہ تمہارے دفتر میں گھس کر تمہارا کان مروڑوں گا
کہانی تو اچھی ہے لیکن اسکول کی فیس، بجلی ، گیس، پٹرول کا خرچہ سوچنے نہیں دیتے
گھر ، دفتر شہر کے مسائل کا حل، نئی دریافت اور بہتری سوچ و بچار کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے
جو ہے اسے ویسا شکر و صبر کے ساتھ قبول کر لینا تو اچھی بات ہے، جو سب کرتے ہیں وہی کرتا ہوں میں بھی ، جب عادتوں اور خواہشوں کے پیچھے چلنا آسان ہے تو سوچنے کی کھکھیڑ کا فائدہ . جب لوح ازل پر سب کچھ لکھا ہے، کتاب بھی ہے اور پیروی کا حکم بھی تو سوچنے میں کیا ثواب ۔ پھر سوچنا مشکل ہے اور مان لینا آسان، سوچ سر درد ہے اور پریشانی بھی
سوچ تو سکھ ہے . اسی کی انگلی تھام کر انسان غاروں، جنگلوں سے نکلا ، بستیاں آباد کیں ، تہذیبی ارتقا ممکن ہوا . معاشرے خود پر سوال اٹھانے ہی سے بہتر ہوئے۔ دریافتیں اور انقلابی ترقی سوچنے سے ممکن ہوئی. رینسساں ، دور دلائل وغیرہ