Skip to content
Home » Blog » سنگِ سیاہ اور بابل کی کہانی

سنگِ سیاہ اور بابل کی کہانی

  • by

سنگِ سیاہ اور بابل کی کہانی

شارق علی
ویلیوورسٹی

سال تھا 1786۔ بغداد کی تپتی دھوپ میں ایک فرانسیسی ماہرِ نباتات، آندرے مشو (André Michaux)، پرانی عمارتوں کے کھنڈرات میں گھوم رہا تھا۔ وہ پھولوں اور پودوں کا محقق تھا، مگر اُس دن قسمت نے اُسے ایک انوکھا تحفہ عطا کیا۔

طاقِ کسریٰ کے کھنڈرات کے قریب، جہاں قدیم تاریخ آج بھی سانس لیتی محسوس ہوتی ہے، اُسے ایک سیاہ رنگ کا بھاری پتھر دکھائی دیا۔ اس پتھر پر عجیب و غریب نقوش اور کچھ پراسرار تحریریں کندہ تھیں۔ مشو رک گیا۔ اُس نے پتھر کو غور سے دیکھا اور محسوس کیا کہ یہ کوئی عام پتھر نہیں۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ اسے اپنے ساتھ لے جائے گا۔

کئی سال تک یہ پتھر اُس کے پاس رہا۔ پھر 1800 میں، آندرے مشو نے یہ پتھر فرانس کے ایک عجائب گھر کو 1200 فرانک میں فروخت کر دیا۔ جلد ہی اسے قومی نوادرات کی لائبریری میں محفوظ کر لیا گیا۔ وہاں یورپ بھر کے مؤرخین کی توجہ اس کی جانب مبذول ہو گئی۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ پتھر، جسے “کدُرّو” (Kudurru) کہا جاتا ہے، قدیم میسوپوٹیمیا (Mesopotamia) کی مکمل تحریری شہادتوں سے بھرپور پہلا ثبوت تھا جو یورپ پہنچا۔

یہ کدُرّو بابل کے بادشاہ مردوک نادِن احّے (Marduk-nadin-ahhe) کے دورِ حکومت (1099 تا 1082 قبلِ مسیح) سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ 46 سینٹی میٹر اونچا، 20 سینٹی میٹر چوڑا اور 22 کلوگرام وزنی تھا۔ اس پر 95 سطریں اور 21 علامتیں کندہ تھیں۔

1861 میں، مشہور برطانوی ماہرِ لسانیات ہنری راولنسن نے اس پر تحقیق شروع کی، اور آخرکار 1895 میں فرانسیسی ماہر جول اوپرٹ (Jules Oppert) نے اس کا مکمل ترجمہ کر لیا۔

یہ صرف ایک پتھر نہ تھا، بلکہ وقت کی تہوں میں دبی ہوئی ایک کہانی تھی، جو ہزاروں سال بعد یورپ کی سرزمین پر دوبارہ کہی اور سنی گئی۔

آندرے مشو کی یہ دریافت دنیا کو بابل کی عظمت، علم اور تہذیب سے روشناس کرانے کا ذریعہ بنی، اور میسوپوٹیمیا کی تاریخ کو ایک نئی بصیرت اور اندازِ نظر عطا کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *