سمندر , تنہا چٹان اور روشنی کا مینار
شارق علی
ویلیوورسٹی
اٹلانٹک کے شوریدہ اور بے قابو پانیوں کے بیچ، آئس لینڈ کی ویسٹ مین جزائر کے قریب ایک تنہا چٹان پر ایستادہ ہے تھریدرا نگاویتی لائٹ ہاؤس۔ دور سے دیکھنے پر یہ منظر حقیقی نہیں بلکہ کسی ڈرامای فلم کا منظر لگتا ہے۔ جیسے کسی جادوگر نے سمندر کے بیچوں بیچ ایک روشن قلعہ کھڑا کر دیا ہو۔
1939 میں تعمیر ہونے والا یہ لائٹ ہاؤس کسی معجزے سے کم نہیں۔ جب ہیلی کاپٹر ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ سامان اور مزدوروں کو اوپر پہنچانے کے لیے ماہر کوہ پیما رسیاں ڈال کر چٹان پر چڑھتے تھے۔ نیچے طوفانی لہریں اور اوپر چالیس میٹر بلند سیدھی کھڑی چٹان۔ یہ انسانی حوصلے کا وہ امتحان تھا جو آج بھی سننے والے کو حیران کر دیتا ہے۔ روایت ہے کہ آخری چڑھائی بغیر کسی حفاظتی ریلنگ کے کی گئی، صرف ننگی چٹان پر ہاتھ پاؤں جما کر۔
اس لائٹ ہاؤس کا مقصد شمالی بحرِ اوقیانوس میں سفر کرنے والے جہازوں کو ان خطرناک چٹانوں سے بچانا تھا جو بظاہر دکھائی نہیں دیتیں۔ یہ خطہ صدیوں سے بحری جہازوں کے لیے خوفناک جال ثابت ہوتا آیا تھا۔ دہائیوں بعد جب یہاں ہیلی کاپٹر لینڈنگ پیڈ بنایا گیا تو رسائی نسبتاً آسان ہوئی، ورنہ اُس وقت تک یہاں پہنچنا کسی مہم جوئی سے کم نہیں تھا۔
آج یہ روشنی کا مینار صرف جہازوں کے لیے رہنمائی نہیں بلکہ آئس لینڈ کے لوگوں کی مستقل مزاجی، انجینئرنگ کی جدت اور فطرت کو قابو کرنے کی انسانی خواہش کی علامت ہے۔ فوٹوگرافر اور سیاح جب اسے دیکھتے ہیں تو اکثر کہتے ہیں کہ یہ منظر Game of Thrones یا کسی قدیم وِای کنگ کہانی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
تھریدرا نگاویتی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان جب ارادہ کر لے تو سمندر کی طوفانی لہریں اور خطرناک چٹانیں بھی اُس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔
انسانی عزم ذندہ باد 🌺
