This story commemorates Mian Tansen, the Indian classical music composer, musician and vocalist who is known for a large number of compositions.
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
سر دریا ، دادا اور دلدادہ ،ا نشے سیریل ، انیسوان انشا ، شا ر ق علی
رات گنے شآم موسیقی سے گھر واپسی پر یا نی آ پا کا ا صرار ھمیں دریا کنارے ان کے محبوب ریستوران میں لے آ یا تھا. ہم بالکونی میں بیٹھے پھیلی ہوئی چاندنی میں دریا کی دھیمے سروں میں بہتی لہروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے. میری فرمائیش پر یا نی آ پا نے نیرہ نور کا نغمہ برکھا برسے چھت پر . میں تیرے سپنے دیکھوں ، سنایا تو مجھ سمیت دادا جی اور انکل بھی مبہوت ہو کر رھ گئے . آ سمان پر بادل کا ٹکڑا دیکھ کر میں نے یا نی آپا کو چھیڑا . وہ دیکھیے میگھ ملہار کی بعد بَارش کے آثار. سب ھنس دیے . دادا جی بولے. میگھ ملہارسے بارش اور دیپک راگ سے آ گ یا اکبر کے دربار کی شمعوں کا خود بخود جل اٹھنا تان سین سے جڑی کہانیاں ہیں.وہ بلاشبہ شمالی ہںدوستان کی کلاسیکی موسیقی کا بانی ہے. گوالیار میں شاید ١٥٠٦ میں پیدا ہوا اور ١٥٨٩ میں وفات پائی. یا نی آ پا چائے کا کپ تھامے بولیں. وو پہلے میوہ کے راما چندرا کا درباری تھا. پھر بطور تحفہ اکبر کے دربار تک پہنچا. اکبر کی بیٹی مہرالنسا کی محبت میں گرفتار ہوا تو حضرت غوث کی ہاتھوں پہلے مسلمان، پھر اکبر کا داماد اور نورتن بن کر میاں تان سین کہلایا. وہ اپنے استاد شری ہریداس کا ہونہار طالب علم تھا . انکل نمکین بسکٹ اٹھائے ہوئے بولے . اس کے ایجاد کردہ راگوں میں بہیرویں ، درباری، ملہار ، سارنگ اور راجیسوری قابل ذکر ہیں . وہ بنیادی طور پر ایک صوفی گائک تھا. کہتے ہیں اس کی موت دیپک راگ سے لگی آگ کے بے قابو ہوجانے سے ہوئی تھی. اس کا مزار گوالیار میں حضرت غوث کے سرہانے ہے. پاس ہی املی کا ایک درخت ہے . اتنا ہی پرانا جتنا کہ مزار . آ ج بھی لوگ اس کے پتے چباتے ہیں کہ سریلے ہوسکیں. دادا جی بولے. روایت ہے کے اکبر بادشاہ نے تان سین سے ایک دفعہ کہا . بلا شبہ تم دنیا کے بہترین گا ئک ہو. اس نے دست بستہ عرض کی . سرکار صرف ایک شخص مجھ سے بھتر گاتا ہے . اکبر نے اس شخص کی دربار میں حا ضری کا حکم دیا. تان سین بولا عالی جاہ گانا سننے ہمیں خود ہی جانا ہوگا. اکبر مان گیا طو یل سفر کے بعد منزل آئی تو رات ہوچکی تھی. تان سین نے کہا . بہت رات ہوچکی . اب تو وہ سو چکے ہوں گے . اگلی صبح شاہی پڑاؤ میں اکبر ابھی بستر ہی میں تھا کہ اس کی آنکھ ایک انتہائی دلکش نغمے سے کھلی. وہ مسحور ہو کر رہ گیا. بلاشبہ یہ گائک تان سین سے بھی زیادہ سریلا تھا. تان سین نے بتایا، یہ میرے استاد شری ھریداس ہیں. انکے تمام سر ، انکا تمام علم و ہنر میں سیکھ چکا ھوں .لیکن صرف ایک بات کا فرق ہے . اکبر نے پوچھا وہ کیا؟ تان سین بولا. میں ہندوستان کے بادشاہ کی خو شنودی کیلنے گاتا ہوں اور یہ کائنات کے رب کی خو شنودی کیلنے…………جاری ہے