Skip to content
Home » Blog » سری منگل

سری منگل

  • by

سری منگل

آٹھویں قسط

ویلیوورسٹی
شارق علی

ہماری وین میگھنا دریا کے چوڑے پاٹ کو عبور کر کے اب سلہٹ کی جانب سفر کرتے ہوئے خاصی دور آ چکی تھی۔ اردگرد کا منظر تبدیل ہونے لگا تھا۔ سرسبز و شاداب فصلی میدانوں اور پانی میں ڈوبے چاول کے دور تک پھیلے کھیتوں کے بجائے اب جا بجا بکھری جھاڑیاں اور چھوٹی قامت کے درخت دکھائی دینے لگے تھے۔ ہلکی سرسبز پہاڑیوں کا ایک نیا منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ وین میں سوار مجھ سمیت کئی ساتھیوں کو مقامی سم کی ضرورت تھی تاکہ دور پردیس میں مقیم اپنے گھر والوں کو خیریت سے مطلع کیا جا سکے۔ میزبانوں نے اسی ضرورت کے احترام میں منزل پر پہنچنے سے کچھ پہلے ایک چھوٹے سے قریبی شہر سری منگل کے مصروف بازار کی جانب وین کا رخ موڑ دیا۔

ہم اس شہر نما قصبے کے مصروف بازار میں داخل ہوئے تو یہ بنگلہ دیش کے شمال مشرقی علاقے کے کسی چھوٹے شہر سے میرا پہلا تعارف تھا۔ اس چھوٹے سے بازار میں کافی رش تھا، زندگی کی گہما گہمی سے بھرپور۔ یہ شہر چائے کے باغات سے منسلک ہے اور تازہ سبزیوں، پھلوں اور چائے کی پتیوں کی تجارت کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس مصروف بازار میں مختلف رنگوں اور خوشبوؤں کا میلہ سا لگا ہوا تھا۔ کچھ مقامی کسان اپنی فصلیں بیچنے کے لیے آئے ہوئے لگتے تھے اور بیشتر مقامی لوگ روزمرہ کی اشیاء خریدنے میں مصروف تھے۔ چھوٹے ہوٹلوں میں روایتی بنگالی کھانا مثلاً پوری بھاجی اور چائے بک رہی تھی۔ گلیوں میں رکشے، سائیکلیں اور پیدل چلنے والے لوگ ایک متحرک اور روایتی بنگالی ماحول کی عکاسی کر رہے تھے۔

ہم وین ایک جانب پارک کر کے مطلوبہ موبائل فون کی دکان پر پہنچے تو پرتپاک اپنائیت سے استقبال ہوا۔ دکان کا مالک ہمیں دیکھتے ہی پہچان گیا کہ ہم مقامی لوگ نہیں ہیں۔ وہ بڑے سلیقے اور شائستگی سے پیش آیا۔ میرا پاسپورٹ لیا، ضروری معلومات نوٹ کیں، اور باقاعدہ تصدیق کے بعد مجھے نئی سم فراہم کی۔

ہم دوبارہ وین میں سوار ہو کر اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔ ہماری منزل چائے کے باغات کے درمیان واقع وہ گیسٹ ہاؤسز تھے جہاں ہمیں کانفرنس کے دوران قیام کرنا تھا۔ ہم چائے کے باغات کے درمیان سے ہو کر گزرے اور میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار چائے کے درختوں کو قریب سے دیکھا۔ ان درختوں کی ترتیب اور خوبصورتی نے مجھے مسحور کر دیا۔ چائے کا درخت عام طور پر دو سے ڈھائی فٹ اونچائی کا ہوتا ہے۔ اس چھوٹے سے درخت میں بھی لکڑی کا تنا نازک مگر مضبوط ہوتا ہے۔ شاخوں پر چھوٹی چھوٹی ہری پتیاں نکلتی ہیں اور درخت کی چوٹی پر سب سے تازہ اور شاداب پتیاں ہوتی ہیں، جو چائے بنانے کے لیے چن لی جاتی ہیں۔ یہ درخت ایک جیسی اونچائی کے ہوتے ہیں اور ہلکی پہاڑیوں کے سلوپ پر خوبصورتی سے لگائے جاتے ہیں، جو دیکھنے میں انتہائی دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ چائے کے یہ حسین باغات نہ صرف اپنی سبز و شاداب رنگت سے دل موہ لیتے ہیں بلکہ ان کا مخصوص نظم و ضبط، ہموار قطاروں میں اگے درخت، منظر کو اور بھی پرکشش بنا دیتے ہیں۔ سری منگل کے بازار کی گہما گہمی سے گزر کر قدرت کی اس سرسبزوشاداب رنگینی تک پہنچنا بہت دلکش لگا۔۔۔۔۔ جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *