Let’s look at the British Raj on the subcontinent from the eyes of Bano Ammi, a common citizen born in undivided India. Prof takes you through a historical journey simultaneously. Lots of insight about Colonial and postcolonial era
سامراج ، ابتدا ، انشے سیریل ، پہلا انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
پروفیسر گل کی والدہ بانو امی فہم آبادکیا آئیں ہمارے معمولات زندگی میں انقلاب آگیا. اب شام کی محفلیں ٹی ہاؤس کے بجائے پروفیسر گل کے بنگلے پر ہونے لگیں . جلد ہی وہ پورے کیمپس کی ہردلعزیز بزرگ بن گئیں. عمر پچاسی کے قریب لیکن ذہنی طور پر بالکل تروتازہ. کھچڑی بال ، مہربان مسکراہٹ، درمیانہ قد اور دبلی پتلی، بچپن تقسیم سے پہلے کے ہندوستان میں گزرا تھا. اس حوالے سے بہت سی حسین یادیں وہ اکثر سنایا کرتیں. اس شام سوفی کے استفسار پر بولیں . میری پیدائش تقسیم سے پہلے کے آگرہ میں ہوئی. والد جنھیں ہم میاں کہتے تھے جوتوں کے دو کارخانوں اور کئی دکانوں اور مکانوں کے مالک تھے. گھر میں خوشحالی تھی لیکن آنکھ کھولتے ہی پہلی محرومی والدہ کی کم عمری ہی میں وفات تھی . ابا اور بڑے بھای بہنوں کی محبت اور عم زادوں کے ساتھ دھما چوکڑی نے کبھی اس کمی کو شدت سے محسوس تو نہ ہونے دیا لیکن پھر بھی محرومی کا یہ احساس اندر ہی اندر کہیں دور تک بس گیا اور ساری عمر ساتھ رہا . میں تھی بھی بہت چٹاخ پٹاخ اور گڑیا سی لڑکی. والد کو بہت پیاری تھی. اس دور کے مسلم گھرانوں کے روایتی مذہبی ماحول کی بندشوں کے باوجودمیرا بچپن گھر کے وسیع دالان میں بارشیں نہاتے، آم کے درختوں پر جھولا جھولتے اور چھت پر آے بندروں کی ٹولیوں سے اٹھکیلیاں کرتے گزرا . آج بھی دریا کے کنارے تاج محل اور فتح پور سیکری کی تاریخی عمارتوں کے درمیان کسی آزاد پرندے کی طرح گزرا ہنستا کھیلتا بچپن خوب یاد ہے . پہلی بار کسی کمی کا احساس ہوا تو وہ اسکول جانے کی اجازت سے انکار تھا. میری تعلیم کا بندوبست گھر ہی پر کیا گیا. عربی کی روائتی تعلیم اور اردو میں ہر قسم کی لکھنے پڑھنے کی مہارت کے بعد یہ سفر ذاتی طور پر بھائیوں کی اسکول کالج کی کتابوں کو پڑھتے رہنے اور پھر تمام عمر ہر موضوع پر کتابیں پڑھنے سے جاری رہا . شاید اسکول جانا میری زندگی کی سب سے بڑی آرزو تھی جو والد کی محبت ملنے کے باوجود پوری نہ ہوسکی ۔لیکن میں نے اپنے بھائیوں کی سکول اور کالج کی کتابیں جس شوق سے پڑھیں شاید انھوں نے خود بھی نہ پڑھی ہوں گی. اس محرومی کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے اپنی اولاد کو علم حاصل کرنے کی محبت ورثے میں دی. تمھارے پروفیسر گل سامنے کی مثال ہیں۔ رمز نے کہا . بانو امی کی کہانی انگریز سامراج کے زیر نگیں ہندوستان میں بسنے والی ایک عام زندگی کی بھر پور نمائندہ ہے. ہم اسے تفصیل سے سننا چاہیں گے . لیکن پروف کیا ہی اچھا ہو اگر آپ انگریز سامراج کے تاریخی پس منظر کی کہانی بھی ساتھ ساتھ سناتے چلے جایں . آخر وہ کون سے اسباب اور وجوہات تھیں جن کی بنا پر برطانیہ جیسے چھوٹے سے ملک نے پورے ہندوستان بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصّے پر حکمرانی کی؟ اتنے وسیع و عریض علاقے پر حکمرانی کے لئے تو ان کے پاس افرادی قوت بھی مہیا نہیں تھی. پھر کیسے وہ ہم سب کو غلام رکھ سکے ؟ سوفی بولی . سامراجیت نے اس خطے کے عام لوگوں کی زندگی ، ان کی ثقافت، زبان اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب کیے ؟. پروفیسر گل نے کہا. بہت اچھا خیال ہے. یہ گفتگو ہندوستان اور پاکستان میں بسنے والے بہت سے لوگوں کے لئے اپنے ماضی کو سمجھنے اور اس سے سیکھنے کا بھرپور موقع فراہم کرے گی . پھر چاے کا بڑا سا گھونٹ لے کر بولے . انگریز سامراجی سلطنت جس پر کبھی سورج غروب نہ ہوتا تھا ہندوستان ہی سے شروع ہوئی۔ یہیں انگریز نے دُنیا پر حکمرانی کے طریقے سیکھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ معاہدہ جس نے اس خطے کی دو سو سالہ قسمت کا فیصلہ کیا وہ یہاں سے ہزاروں میل دور پیرس میں طے پایا . کئی برس طویل آپس کی یورپی جنگوں کے بعد برطانیہ ، فرانس ، اسپین اور پرتگال کے نمائندے فروری سن سترہ سو تریسٹھ میں پیرس ٹریٹی میں اس بات پر متفق ہوے کہ برسوں سے جاری آپس کی جنگ کا خاتمہ کیا جاۓ اور بقیہ غیر ترقی یافتہ دنیا کی بندر بانٹ کر لی جاے ۔ کینیڈا سے افریقہ تک پھیلی ایک وسیع دنیا کو آپس میں تقسیم کر لیا جاۓ . ان مذاکرات میں برطانیہ کی نمائندگی ڈیوک آف بیڈفورڈ نے کی ، ایک مغرور اور مفاد پرست انگریز جس نے کبھی ہندوستان کا سفر نہ کیا تھا. اس کی عیار سیاسی سوجھ بوجھ نے ان امن مذاکرات سے برطانیہ کے لئے بے حد دوررس مفادات حاصل کر لئے. برطانیہ کو ہندوستان پر تسلط کا حق مل گیا . اسی فیصلے نے بالآخر برطانیہ کو عالمی سامراجی طاقت بنایا—— جاری ہے