He conquered the city of Babylon and freed the slaves. Declared racial equality and religious freedom. Written on baked-clay cylinder in the cuneiform script is the great story of human rights
سائرس دی گریٹ ، دنیا گر ، انشے سیریل ، تیسرا انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
اولین تہذیبوں کی بات ہو تو یونان اور روم کا ذکر آتا ہے. کیا مشرق میں کوئی عظیم تہذیب نہ تھی؟ سوفی نے پوچھا . ہم رات کے کھانے کے بعد لان کی کرسیوں پر نیم دراز گفتگو میں مصروف تھے . پروف بولے . اولین تاریخ یونانیوں نے لکھی جو ایرانیوں کو کم تہذیب یافتہ ثابت کرنے پر مصر تھے . پانچ سو قبل مسیح میں یونانی اور ایرانی فوجوں کے درمیان جنگوں کا پچاس سالہ سلسلہ ہے جو ایتھینز اور سپارٹا جیسی شہری ریاستوں کی مشترکہ فتح پر ختم ہوئی تھیں. ہیروڈوٹس ان جنگوں میں یونانیوں کو ہیرو اور ایرانیوں کو ولن بنا کرپیش کرتا ہے جو درست نہیں . یونانی تہذیب کا اثر دنیا میں پھیلا تو سائرس جو انسانی حقوق کا اولین ہیرو ہے کو غیر تہذیب یافتہ کہہ کر بھلا دیا گیا . یہ قبائلی سردار ماہرانہ جنگی صلاحیتوں اور اس سے بھی بڑھ کر اخلاقی رویوں اور معیارات کی وجہ سے اپنی سلطنت کو دور تک پھیلانے میں کامیاب ہوا تھا . دنیا کی پہلی تہذیب یافتہ عالمی طاقت جس کا پھیلاؤ مغربی ہندوستان سے لے کر میسو پوٹیمیا، ایتھوپیا اور موجودہ روس کی سرحدوں تک پوھونچتا تھا. تیس سے زیادہ زبانوں اور ثقافتوں کے علاقے اس سلطنت میں شامل تھے. مرکز ایران کا شہر پسارگارڈی تھا . کیسا تھا وہ شہر ؟ میں نے پوچھا . بولے . پسارگارڈی اس عظیم تہذیب کی نشانیاں چھپائے دو ہزار سال تک صحرا کی ریت میں مدفون رہا . آثار قدیمہ کے ماہرین نے اسے انیس سو تیس میں موجودہ ایران کے شہر شیراز کے نزدیک بازیافت کیا تو آشکار ہونے والے شواھد نے تاریخی نکتہ نظر کو تبدیل کر دیا . عظیم الشان ستون ، سیڑھیاں ، محرابی درودیوار اور ان پرکنداں نقش و نگار اور نوادرات. سب سے بڑھ کر مٹی کی وہ تختیاں جن پر قدیم کیونیفارم تحریریں لکھی ہوئی ہیں . اس دور کی فکر . امور سلطنت اور قوانین جو قدیم فارس کے لوگوں نے خود تحریر کیے تھے. قدیم لکھاری مٹی کی بنی ان تختیوں کو اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں سمیٹ لیتا اور دائیں ہاتھ سے ان کے اوپر گیلی مٹی کی صورت ہدایات لکھتا جاتا . یہ تحریریں ڈھائی ہزار سال پرانی کہانی سناتی ہیں . بہت سی تختیوں پر ادائیگیوں کا حساب ہے جو سونے اور چاندی کی صورت میں کی جاتی تھی. اس لحاظ سے اس شہر کی تعمیر پر بے اندازہ دولت خرچ ہوئی. بادشاہ کے محل میں کھڑکیوں کی تعمیر ایسے زاویوں سے تھی کہ سورج کی روشنی ہر طرف سے کمرے کو روشن رکھے . رات ہونے پر انہی زاویوں سے شاندار چراغاں ممکن تھا . پندرہ میٹر سے بھی اونچے چبوترے پر قائم یہ محل نما ذاتی کمرے اور اس سے ملحقہ عمارتیں ڈھائی ہزار سال پرانی تعمیراتی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں . ترتیب، تناسب اور تفصیل کے لحاظ سے ایک شاہکار . اونچائی تک جاتی سیڑھیوں کے اردگرد دیواروں پر بنی مجسمی تصویروں سے پتہ چلتا ہے کہ دور دراز سے آئے معززین بادشاہ کے لیے قسم قسم کے تحفے دربار میں پیش کرتے تھے. زروجواہرات، اعلی نسل کے گھوڑے اور عمدہ نسل کی بھیڑیں. کیوں منفرد تھی سائرس کی بادشاہت ؟ رمز نے پوچھا . بولے . جنگ کے دوران تو اس کی فوج کا رویہ ویسا ہی ہوتا تھا جیسا کسی دوسری فوج کا. یعنی وہ دشمن کو تباہ و برباد کردیتے تھے. لیکن فتح کے بعد سائرس کا رویہ مفتوح عوام کے ساتھ بے حد منفرد تھا. وہ تقریر کر کے عوام کو یقین دلاتا کہ وہ انہیں دکھ اور پریشانی سے محفوظ ایک پر امن زندگی دینے کے لیے آیا ہے. وہ کہتا اگر عوام اپنے روزگار جاری رکھیں اور وقت پر اپنا ٹیکس ادا کرتے رہیں تو پھر انہیں آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے. پھر عملی طور پر اس کی فوجیں قتل و غارت گری ، تشدد یا غلام بنا لینے سے مکمل گریز کرتی تھیں . مفتوح عوام کو اپنی زبان ، ثقافت اور مذہب برقرار رکھنے کی پوری آزادی ہوتی تھی . اس طرح وہ بہت جلد دلوں پر حکمرانی کرنے لگتا تھا. ایک جنگ کے دوران اس نے چالیس ہزار یہودی پکڑے . قیدیوں کو غلام بنا لینا اس دور کی عام رسم تھی. لیکن اس نے ان یہودیوں کو نہ صرف آزاد رہنے دیا بلکہ واپس فلسطین جانے میں ان کی بھرپور مدد کی۔ یہ تفصیل معلوم کیسے ہوئی ؟ میں نے پوچھا . بولے. بابیلون کی فتح کی تفصیلات اور انسانی حقوق کے بارے میں اس کی فکر اس زمانے کے بنے مٹی کے سلنڈر جو اب سائرس سلنڈر کہلاتے ہیں پر کیونیفارم تحریر میں درج ہیں. آثار قدیمہ کے ماہرین نے انھیں پڑھ کر اس کے طرز حکومت اور خیالات کی تفصیل معلوم کر لی ہے . مٹی پر لکھی یہ تحریریں انسانی حقوق کی پہلی دستاویز ہیں . وہ نسل، مذہب، رنگ یا زبان کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی برتری کو مسترد کرتا ہے. سب کو مساوی حقوق دینے کا حامی ہے. وہ جلاوطن غلاموں کو وطن لوٹ جانے اور آزاد انسان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے . تباہ شدہ عبادت گاہوں کی دوبارہ تعمیر کرکے انہیں عقیدت مندوں کو لوٹانے کے حق میں ہے. اس نے ایرانی شہروں کے نئے طرز تعمیر کی بنیاد رکھی. دور تک پھیلے ہوے باغوں میں جا بجا شاندار محلاتی عمارتیں اور ان کو ملا تی ہوئی خوبصورت گزرگاہوں کے کنارے بہتی نہریں اور حوض . سائرس پانچ سو تیس قبل مسیح میں غالباً جنگ کے دوران اس دنیا سے رخصت ہوا …….. جاری ہے