Skip to content
Home » Blog » زینوبیہ کا شہر پالمائرا

زینوبیہ کا شہر پالمائرا

  • by

زینوبیہ کا شہر پالمائرا

شارق علی
ویلیو ورسٹی

دمشق سے تقریباً 215 کلومیٹر شمال مشرق کی جانب، شام کے ویران اور سنہری صحرا میں ایک نخلستان، اپنے طویل قامت کھجور کے درختوں کے ساتھ، تاریخ کے صفحات میں جگمگاتا ہے۔ زیرِ زمین چشموں کی بدولت یہ مقام نہ صرف صحرا میں زندگی کی علامت بنا بلکہ تہذیبوں کے درمیان ایک عالمی شاہراہ کی صورت اختیار کر گیا۔

کھجور کے درختوں کی قطاریں، رفتہ رفتہ بلند و بالا ستونوں کی قطاروں میں ڈھلنے لگیں۔ یہاں کارواں در کارواں تجارتی قافلے پانی بھرنے، آرام کرنے، اور مشرق و مغرب کے درمیان سامانِ تجارت کے تبادلے کے لیے آنے لگے۔ یہ وقتی قیام گاہ آہستہ آہستہ ایک گنجان آباد اور باوقار شہر میں تبدیل ہو گئی۔ یہ شہر تھا پالمائرا — جسے عربی میں تدمر کہا جاتا ہے۔

پالمائرا بحرِ روم اور دریائے فرات کے درمیان ایک اہم تجارتی راستے پر واقع تھا۔ رومیوں نے اسے پالمائرا یعنی “کھجوروں کا شہر” کا نام دیا۔ یہاں کے بازار، شاندار معبد، اور خوبصورت گلیاں رفتہ رفتہ ایک عظیم الشان تمدن کی آئینہ دار بن گئیں۔

یہ وہ مقام تھا جہاں یونانی، رومی، اور مشرقی فنِ تعمیر کے عناصر باہم گُھل مل کر ایک نیا جمالیاتی اظہار تشکیل دیتے تھے۔ مونومنٹل آرچ، معبدِ بل، معبدِ بعل شامن، اور پتھروں سے تراشا گیا عظیم تھیٹر آج بھی اس تمدن کی شان و شوکت کے گواہ ہیں۔

تیسری صدی عیسوی میں اس شہر کی تقدیر نے ایک نیا موڑ لیا— جب ملکہ زینوبیا نے پالمائرا کو اپنی دانش، جرأت اور حُسنِ قیادت سے ایک خودمختار سلطنت میں ڈھال دیا۔ اُس نے نہ صرف روم کی طاقت کو چیلنج کیا بلکہ مصر اور اناطولیہ تک اپنی فتوحات کا پرچم لہرایا۔ اگرچہ آخرکار رومی شہنشاہ اوریلیئن کے ہاتھوں شکست کھانا پڑی، مگر زینوبیا کا وقار تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔

پالمائرا صرف اینٹ پتھروں کا ڈھیر نہیں تھا، بلکہ ایک عظیم ثقافتی سنگم تھا۔ یہاں آرامی اور یونانی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ یہاں کی مجسمہ سازی، فنونِ لطیفہ، اور قبروں کے یادگاری کتبے اس کی تہذیبی وسعت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مشرق و مغرب کے درمیان پُل بننے والا یہ شہر آج بھی انسانی ارتقا کی داستان سناتا ہے۔

بدقسمتی سے 2015 میں شدت پسندوں نے اس تاریخی شہر کے کئی عظیم آثار، بشمول معبدِ بل اور مشہور محراب، کو تباہ کر دیا۔ مگر پالمائرا کی روح آج بھی زندہ ہے— کھنڈرات میں، یادوں میں، اور تاریخ کے اوراق پر۔

پالمائرا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ علم، ثقافت، اور بین الثقافتی روابط، انسانیت کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ ماضی کا ورثہ محض یادگار نہیں بلکہ ہماری پہچان کا حصہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *