زندگی، کام، اور خوشی کا توازن
شارق علی
ویلیو ورسٹی
دنیا کے کئی ممالک، خصوصاً جاپان، چین اور مغربی یورپ میں، نوجوان نسل نے خاموشی کے ساتھ کام سے متعلق اپنے رویے میں نمایاں تبدیلی لانا شروع کر دی ہے۔ یہ باشعور نوجوان اب کام کو “زندگی کا مرکز” ماننے کے بجائے “زندگی کا ایک حصہ” سمجھنے لگے ہیں، اور یہ کوئی منفی رجحان نہیں بلکہ ایک صحت مند سوچ کی علامت ہے۔
آج کا نوجوان سمجھتا ہے کہ صرف دفتر میں اضافی گھنٹے گزار کر نہ تو حقیقی خوشی حاصل کی جا سکتی ہے، نہ ہی رشتوں میں قربت پیدا ہوتی ہے، اور نہ ہی ذہنی سکون میسر آتا ہے۔ وہ اب ایک ایسا طرزِ زندگی چاہتے ہیں جہاں کام صرف معاشی ضرورت پوری کرے، جبکہ ان کی اصل پہچان اُن کے شوق، ٹیلنٹ، خاندانی تعلقات، سماجی کردار، اور ذہنی و جسمانی صحت سے جڑی ہو۔
یہ نوجوان ورزش کے لیے جم جانا پسند کرتے ہیں، وقت پر سوتے ہیں، دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ تعلقات نبھاتے ہیں، اور جذباتی مسائل پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ ان کے لیے تنخواہ اہم ضرور ہے، لیکن اُس سے بڑھ کر “عزت”, “معنویت”, اور “توازن” کی قدر ہے۔
یہ نسل ہم بزرگوں کو سکھا رہی ہے کہ کامیابی صرف عہدے، دفتر یا بینک بیلنس کا نام نہیں، بلکہ وہ لمحے بھی قیمتی ہیں جب ہم اپنے والدین کے ساتھ چائے پیتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں، دوستوں کے ساتھ ہنستے ہیں، یا کسی کے دکھ میں شریک ہوتے ہیں۔
ہمیں نوجوانوں کو اس نئے طرزِ فکر کو اپنانے پر سراہنا چاہیے، کیونکہ یہی رویہ نہ صرف انہیں ایک مکمل انسان بناتا ہے، بلکہ ایک بہتر، متوازن اور ہمدرد معاشرے کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔
یاد رکھیں:
“کام کرو، ضرور کرو، دل لگا کر کرو؛
لیکن زندگی بھی بھرپور جیو ، پورے دل سے!”