ریلوے اسٹیشن پر
آہنی، سبز رنگ، جنگلے کے پاس
باتوں باتوں میں ایک برگِ عقیق
تو نے جب توڑ کر مسل ڈالا
مجھے احساس بھی نہ تھا کہ یہی
جاوداں لمحہ، شاخِ دوراں سے
جھڑکے، اک عمر، میری دنیا پر
اپنی کملاہٹیں بکھیرے گا
اسی برگِ دریدہ جاں کی طرح
آج بھی اس دہکتی پٹڑی پر
گھومتے گھنگھناتے پہیوں کو
سیٹیوں کی دھواں اگلتی صدا
جب پیامِ رحیل دیتی ہے
روز سو سنگتیں اجڑتی ہیں
لاکھ سنجوگ مسکراتے ہیں
آج بھی ریلوے سٹیشن پر
آہنی، سبز رنگ جنگلے کے پاس
قدِ آدم، عقیق کے پودے
تھام کر سرخ دھاریوں والے
زرد پھولوں کے موہنے گجرے
بھری دنیا کے جمگھٹوں میں کھڑے
گوشت اور پوست کے وہ پیکر ہیں
اک زمانے سے جن کی زندگیاں
لوٹ کر پھر نہ آنے والوں کی
منتظر منتظر چراغ بکف
وقت کے جھکڑوں سے کھیلتی ہیں
اسی برگِ دریدہ جاں کی طرح
مجید امجد