رون ہائلز
تیسری قسط
شار ق علی
ویلیو ورسٹی
“This episode pays tribute to a renowned plastic surgeon, Ron Hiles, for his services spanning over three decades. He treated victims of acid attacks, burns, and accidents in Bangladesh and trained an entire generation of plastic surgeons there.”
” یہ تحریر ایک معروف پلاسٹک سرجن، رون ہائلز، کو تین دہائیوں سے زیادہ خدمات پیش کرنے پر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں تیزاب حملے کے متاثرین، آگ اور حادثات کے شکار افراد کا علاج کیا اور وہاں کے پلاسٹک سرجنز کی ایک پوری نسل کو تربیت دی”
ہوٹل گولڈن ڈئیر کی رجسٹریشن ڈیسک پر موجود عملے نے ہم سے فارم مکمل کروایا، پاسپورٹ کی فوٹو کاپی کر کے اپنے پاس رکھی اور ہمیں ہماری پسند کے مطابق کمرے الاٹ کیے۔ چونکہ قیام صرف ایک رات کے لیے تھا، اس لیے کمرے کی تفصیلات کے بارے میں ہم سب خاصے مطمئن تھے۔ اسی دوران ہم نے رجسٹریشن ڈیسک سے یہ بھی معلوم کرلیا کہ کون سے شناسا دوست ہم سے پہلے ہوٹل پہنچ چکے ہیں۔ ایک ملازم نے ہمارا سامان اٹھایا اور ہم باری باری اپنے کمروں تک پہنچے۔ میرا کمرہ دوسری منزل پر تھا اور میری ضرورت سے زیادہ سہولیات سے آراستہ تھا۔ یہ بے حد کشادہ تھا، آرام دہ کنگ سائز بستر، خوبصورت لکھنے کی میز، الماری، وائی فائی اور بے حد صاف ستھرا باتھ روم اور شاور جیسی تمام سہولیات موجود تھیں۔ دوستوں سے ملنے کا اشتیاق شدید تھا، اس لیے میں نے جلدی جلدی سامان قرینے سے رکھا اور بغیر کپڑے تبدیل کیے سیڑھیاں اتر کر ہوٹل کی لابی میں دوستوں سے ملاقات کے لیے پہنچ گیا۔
لابی میں داخل ہوتے ہی رون، رچرڈ اور اپوکو صوفے پر بیٹھے نظر آئے۔ جیسے ہی انہوں نے مجھے دیکھا، تینوں گرمجوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ رچرڈ کا تعلق نائجیریا سے ہے اور اپوکو کا گھانا سے۔ رون ہائلز چھہتر سالہ انگریز ہیں اور برسٹل کے فرنچے ہسپتال کے ریٹائرڈ پلاسٹک سرجن اور برٹش ایسوسی ایشن آف پلاسٹک سرجنز کے سابق صدر ہیں۔ میں نے ان جیسا تروتازہ، سمارٹ اور ذہنی و جسمانی طور پر متحرک شخص اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ وہ بنگلہ دیش کی ایک معروف سماجی شخصیت ہیں۔ وہ 1982 سے ہر سال تین مہینے بنگلہ دیش میں قیام کرتے ہیں، جہاں وہ نہ صرف اپنے شاگردوں کے پیچیدہ کیسز کی سرجری کرتے ہیں بلکہ وہاں کے پلاسٹک سرجنز کو تربیت بھی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہاں انہیں پلاسٹک سرجری کا بانی اور استاد مانا جاتا ہے۔ رون سے میری ملاقات نا صرف بنگلہ دیش کے قیام کے دوران ہوئی بلکہ ہم بھارت کے صوبے جھارکھنڈ میں رانچی سے جمشید پور تک ہمسفر بھی رہے تھے اور وہاں ٹاٹا ہسپتال میں ایک ساتھ انڈین ڈاکٹرز کو تربیت دی تھی۔ ٹاٹا مین ہسپتال میں ہمارا قیام تین روز کے لیے تھا۔
رون بلا شبہ ایک بہترین دوست اور استاد کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ لابی میں بیٹھتے ہی پہلے تو ایک دوسرے کے سفر کا حال دریافت کیا گیا اور پھر چائے منگوائی گئی۔ رون کو ایک ضروری کام سے برطانیہ واپس لوٹنا تھا، انہوں نے کانفرنس میں شرکت نہ کر سکنے پر معذرت کی اور افسوس کا اظہار کیا۔ رون کو اس وقت پورے بنگلہ دیش میں ٹی وی اور اخبارات میں بے تحاشا شہرت ملی تھی جب انہوں نے چیتے کے حملے سے زخمی نوجوان کے مسخ شدہ چہرے کی کامیاب پلاسٹک سرجری کی تھی۔ وہ بلا شبہ نوجوان ڈاکٹروں کے لیے ایک بھرپور رول ماڈل ہیں۔ اپنے ساتھی پلاسٹک سرجنز کی طرح انہوں نے ہارلے سٹریٹ میں خواتین اداکاراؤں کے جسم اور چہرے کے حسن میں اضافے یا انہیں کم عمر دکھانے جیسی منافع بخش سرگرمی کو ترک کر کے آگ اور حادثات سے متاثرہ افراد کے تباہ شدہ جسموں کو زندگی کی طرف واپس لانے میں سکون پایا۔
ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے رون نے کہا تھا کہ میری چھٹیاں سمندر کے کنارے ریت پر لیٹنے کے بجائے دکھی لوگوں کی خدمت میں زیادہ کارآمد گزرتی ہیں۔ میں نے اپنے پچھلے دورے میں ڈھاکہ میڈیکل کالج کے پروجیکٹ ڈائریکٹر سمنتا لال سین کو رون کے ساتھ دیکھا تھا جب وہ انہیں سائیکل رکشہ میں بٹھا کر میڈیکل کالج کا دورہ کروا رہے تھے اور بڑے فخر سے کہہ رہے تھے “رون از مائی ماسٹر”۔ جس ملک میں ہر سال ہزاروں افراد تیزاب حملوں کا شکار ہوتے ہیں، وہاں رون جیسے لوگوں کی قدر کیوں نہ ہو۔ رون نے پچھلے پینتیس برسوں میں نہ صرف پلاسٹک سرجنز کی ایک پوری نسل تیار کی ہے بلکہ دنیا کے سب سے بڑے ڈھاکہ میڈیکل کالج برنس یونٹ کے قیام میں بھرپور خدمات انجام دی ہیں۔ یہاں ان کا سماجی مرتبہ اتنا بلند ہے کہ ایک بار انہوں نے وزیراعظم اور صدر سے ملاقات کر کے برنس یونٹ کے لیے مزید بستروں کی منظوری حاصل کی تھی۔ رون کو 2004 میں او بی ای (OBE) سے نوازا گیا تھا۔ ان کی بیوی ہر سال کی طرح اس بار بھی ان کے ساتھ تھیں۔ بعض اوقات ان کے پوتے پوتیاں بھی، جو اب میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، بنگلہ دیش میں اس خدمت میں شریک ہوتے ہیں۔۔۔ جاری ہے