Maharajas were the puppet rulers of India, whose strings were in the hands of British Raj. The story continues in the developing world by local rulers and superpowers
میں اور انوری بہت خوش تھے کیونکہ اگلے دن ایک شادی میں شرکت کرنا تھی اور خبر گرم تھی کہ راجہ صاحب ہاتھی پر بیٹھ کر آیں گے . بانو امی اور سوفی میں گفتگو جاری تھی ، بولیں. ہاتھی تو ہم دونوں کا دیکھا ہوا تھا کہ ان دنوں آگرے کی سڑکوں پر کبھی کبھار ہاتھی کی سواری نکلتی دکھائی دے جانا بہت غیر معمولی نہ تھا. زیادہ اشتیاق خود راجہ صاحب اور ان کے مہاوت کو دیکھنے کا تھا . اگلے دن زردوزی کے کام والے کرتے اور چوڑی دارپاجامے پہن کر شادی میں شریک ہوئے تو لطف آ گیا. قسم قسم کے کھانے اور مٹھائیاں . ہاتھی بھی شاندار اور ہماری توقع سے کہیں زیادہ توانا . پھولوں کے ہاروں سے سجا اور ماتھے پر چاندی کا جھومر بھی . کسی نے بتایا کہ ہفتے بھر میں منوں گننے اور پیپل کے پتے کھا جاتا ہے . انوری کو ہاتھی اور مجھے زرق برق لباس پہنے مہاوت بہت اچھا لگا . راجہ صاحب نے دونوں کو بہت مایوس کیا. بہت بھاری بھرکم لباس فاخرہ کے باوجود کمر جھکی ہوئی اور اتنے دبلے کے بسنت کی ہوا چلے تو پھر سے اڑ جایں . اس پر رنگ بھی سانولا . سب لان میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ چکے تو پروف بولے . مقامی فوج کی تشکیل کے علاوہ انگریز نے مقامی حکمرانوں یعنی راجہ مہاراجاؤں کو بھی اپنے ساتھ ملایا۔ ان سے ایسے معاہدے کرکے کہ وہ اپنی حکمرانی جاری رکھ سکتے ہیں لیکن انگریز کے ماتحت مقامی فوج ان کی حفاظت پر مامور رہے گی. یوں تھوڑے سے ٹیکس یا لگان کے بدلے میں وہ اپنا راج محفوظ رکھ سکتے ہیں. یہ ایک سامراجی چال تھی. اس محفوظ حکمرانی کا جال انگریز نے آہستہ آہستہ پورے ہندوستان میں پھیلا دیا. بظاھر تو سارے راجے مہاراجے انگریز کے زیرتسلط اپنا بھرم قائم رکھے ہوے تھے لیکن اصل حکمران ٹیکس لگانے والا انگریز تھا. وہ یہ حکمرانی مقامی فوج کے زور پر کرتا تھا. وقت گزرنے کے ساتھ حکمران طبقہ جس میں انگریز، راجہ مہاراجہ اور اعلی مقامی فوجی افسران شامل تھے ایک دوسرے سے ثقافتی طور پر بھی قریب آتے چلے گئے. انگریزی زبان ، برطانوی رسم و رواج مثلا لباس اور طور طریقے مقامی حکمرانوں اور اعلیٰ فوجی افسروں کی زندگی کا حصّہ بننے لگے . رمز نے کہا . آج بھی کسی فوجی میس کی تقریب میں چلے جائیے تو برطانوی انداز واضح طور پر دکھائی دیں گے . یہی صورتحال خان بہادر قسم کے حکمران طبقہ کی تقریبات کی بھی ہے . ایسا کیوں ہے ؟ پروف بولے . انگریز نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت حکمران طبقے کے نو عمر بچوں کو برطانیہ بھیج کر مقامی کٹھ پتلی حکمران تیار کرنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ۔ مہاراجاؤں کے آٹھ دس سالہ بچوں کو برطانیہ بھیجا جاتا. وہیں ان کی سکولنگ ہوتی. وہ آکسفورڈ میں پڑھتے اور پوری طرح برٹش بن کر واپس آتے تاکہ وہ یہ ڈرامہ جاری رکھ سکیں اور اصل اقتدار انگریز کے پاس ہی رہے. انگریز ماہرین تعمیرات نے ان راجہ مہاراجاؤں کے محل ڈیزائن کئے اور برطانوی طرز کی اندرونی آرائش ترتیب دی . یوں انہوں نے مقامی حکمرانوں کو اپنے ثقافتی رنگ میں رنگا . جب پورے ہندوستان میں یہ نظام پھیل گیا تو انگریز نے اس وعدے کی پاسداری سے بےوفائ کرنا شروع کردی. اب وہ چھپ کر نہیں بلکہ کھل کر اور سامنے آکر حکمرانی کرنا چاہتا تھا۔ انگریز نے یہ کام بھی بہت چالاکی سے کیا. پہلے قدم میں اس نے مہاراجہ سے ساری سیاسی طاقت کھینچ کر اپنے ہاتھ میں کرلی لیکن انھیں محلات اور اپنا بھرم قائم رکھنے کے لئے علامتی طور پر اپنا خطاب قائم رکھنے کا اختیار دیا. مہاراجاؤں کی ظاہری شان و شوکت ویسی ہی . آباء و اجداد کی شاندار تصویریں دیواروں پر آویزاں اور محلات کی آرائش میں وہ ہی بادشاہ بنے نظر آتے تھے لیکن درحقیقت ان کی کوئی حیثیت نہ تھی. سارا اختیار اور طاقت انگریز بہادر کے ہاتھ میں تھی ——- جاری ہے