Skip to content
Home » Blog » ذائقوں کا رقص، اندلس کہانی، آٹھویں قسط

ذائقوں کا رقص، اندلس کہانی، آٹھویں قسط

ذائقوں کا رقص، اندلس کہانی، آٹھویں قسط

✍️ شارق علی
ویلیوورسٹی

قدیم قرطبہ کی تنگ گلیوں سے نکل کر اب ہم رستورانوں سے سجی ایک روشن سڑک پر کسی مناسب جگہ کی تلاش میں تھے۔ اس جدید منظر میں بھی مسجد قرطبہ کی فصیل ماضی کی خوشبو کی طرح ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ لیکن سامنے کا منظر جدید سپین کی رنگینی اور زندگی سے بھرپور تھا۔

ہم نے رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجی چھت والے ایک سپینش ریسٹورانٹ کا انتخاب کیا۔ باہر لکڑی کی میزوں پر لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے، لیکن ہم نے اندر مرکزی ہال میں بیٹھنا پسند کیا۔ ٹرپ ایڈوائزر کے مطابق یہ جگہ مقامی کھانوں کے لیے خاصی مشہور تھی۔

مینو پر نظر دوڑائی تو کچھ نام بالکل اجنبی لگے:
Patatas Bravas, Gazpacho, Tortilla Española, اور Paella۔
سب کچھ صوتی اعتبار سے رنگین اور خوشبودار لگا۔

ہم نے “پائیلا” کا انتخاب کیا — زعفران سے رنگی چاولوں کی ڈش جس میں مچھلی، جھینگے، سبزیاں اور خوشبودار مصالحے شامل تھے۔ ساتھ میں “پاتاتس براواس”، یعنی تلے ہوئے آلو مصالحے دار چٹنی کے ساتھ، اور “گازپاچو”، ٹماٹر پر مبنی ٹھنڈا سوپ، جو اسپین کا خاص تحفہ سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے برابر والی میز پر ایک ادھیڑ عمر اسپینش جوڑا بیٹھا تھا، خوش قسمتی سے دونوں انگریزی بول سکتے تھے۔ پہلے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا، پھر وہ ہماری ٹیبل کے پاس آ بیٹھےاور بات چیت شروع ہو گئی۔ خاتون کا نام لورینا اور صاحب کا سانتیاگو تھا۔ لورینا نے پھولوں والی خوش رنگ فراک پہن رکھی تھی، کانوں میں جھولتے بڑے جھمکے ان کے ذوق کی گواہی دے رہے تھے۔ سانتیاگو کے ہاتھ میں گٹار تھا، اور کچھ دیر بعد وہ بغیر نوٹس دینے نرمی اور رچاؤ سے گنگنانے لگے، شاید کسی فلمنکو گیت کی تمہید۔

اس اچانک گلوکاری کے باوجود ریسٹورانٹ کی فضا میں کوئی خلل نہ آیا۔ یہاں موسیقی، بات چیت، اور زندگی ایک ہی بہاؤ میں رواں تھی۔

گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ یہاں کے لوگ زندگی کو موسیقی کی طرح جیتے ہیں ۔ تھوڑا دکھ، تھوڑی خوشی، کچھ وجدانی کیفیت، اور بے حساب جذبہ۔

لورینا کہنے لگیں:
“ہم اسپینش لوگ سست مزاج ہوتے ہیں، وقت کے گزرنے سے زیادہ لمحۂ موجود کو جیتے ہیں۔ دن کا آغاز دیر سے ہوتا ہے، بازار اور دکانیں دس گیارہ بجے سے پہلے نہیں کھلتیں۔ کھانے کا بھی کوئی مقرر وقت نہیں!”

میں نے کہا، “یہ تو بالکل ہم پاکستانیوں جیسی عادتیں ہیں۔ بے وقت کھانا اور سستی میں تو خوب مقابلہ ہو سکتا ہے۔”

سانتیاگو نے قہقہہ لگایا،
“شاید اسی لیے ہم لمبی عمر جیتے ہیں۔ بغیر جلدی، بغیر پریشانی۔ یہاں اوسط عمر 83 سال ہے!”

ان دونوں سے کچھ اور دلچسپ حقائق بھی معلوم ہوئے:
اسپین دنیا کے سب سے بڑے زیتون کے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ “سیستا” یعنی دوپہر کے کھانے کے بعد آرام کا رواج، اب بھی دیہی علاقوں میں عام ہے۔ اسپینش لوگ دنیا کے سب سے زیادہ سماجی مزاج رکھنے والے افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ یورپ کے دیگر ممالک کے بر عکس یہاں رات دس بجے کھانا معمول کی بات ہے۔

فلمنکو ان کے لیے صرف رقص یا موسیقی نہیں بلکہ ایک ثقافتی اظہار ہے۔ ایک زندہ احساس، ایک قومی بیانیہ۔

جب بات کھانوں پر آئی تو ہم نے “بریانی” اور “پائیلا” میں خاصی مشابہت محسوس کی۔
پائیلا یعنی زرد زعفرانی چاول، زیتون کے تیل میں پکی ہوئی مچھلی، جھینگے، اور چکن۔ مجھے تو یہ کسی اسپینش بریانی جیسی لگی۔

مرچوں والی چٹنی میں ڈوبے تلے ہوئے آلو، اور ٹماٹر کے سوپ کے ساتھ ذائقہ کچھ ایسا تھا جیسے زبان پر کوئی ناچ ہو رہا ہو۔ نمکین، ترش، ہلکی مٹھاس، اور زیتون کی خوشبو کے ساتھ زبان کے فلور پر ہوتا ہوا ذائقوں کا رقص۔

فیشن کی بات نکلی تو لورینا نے بتایا،
“عام دنوں میں تو ہم لوگ آرام دہ کپڑے پہننا پسند کرتے ہیں، لیکن تہواروں پر رنگوں کا طوفان آ جاتا ہے۔ Zara اور Mango جیسے برانڈز کا تعلق بھی اسپین ہی سے ہے۔”

کھانا سرو ہوا تو لورینا نے مسکرا کر ہماری طرف دیکھا اور کہا:

“Buen provecho!”
(یعنی، “آپ کا کھانا لذیذ ہو”)

ہم نے بھی جواباً “Gracias” کہا۔ آپس کی بات ہے، ہماری اسپینش اسی ایک لفظ پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔
مہمان نوازی، موسیقی، ذایقوں، اور رنگوں سے بھرا جیتا جاگتا اسپینش کلچر!

(جاری ہے…)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *