In order to live a rich life possess less said the Diogenes of Sinope. This is the story of his encounter with Alexander the Great.
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
دیوجانس کی باتیں، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، تیرھواں انشا، شارق علی
نیرنگ آباد لائبریری کے ہال کی بتیاں مدھم کردی گئیں۔ دادا جی، میں اور یانی آپا بینچوں کی تیسری قطار میں بیٹھے تھے۔سر آغا، جو فلسفے کے استاد ہیں، اپنا لیکچر شروع کرتے ہوئے بولے۔آج ہم ترکی کے شہرسائی نوپ میں چارر سو چار ق م میں پیدا ہونے اور تین سو تیئس ق م میں رخصت ہونے والے یونانی فلسفی دیوجانس کلبی کے انسانی خوشی کے تصور پر بات کریں گے۔ایک بیرل میں رہنے والے دیوجانس کا کل اثاثہ ایک لبادہ، ایک تھیلا اور ایک پیالہ تھا۔ ایک دن اس نے ایک لڑکے کو اوک سے پانی پیتے دیکھا تو اپنا پیالہ بھی پھینک دیا۔ اس کے خیال میں پر مسرت اور دولتمند وہ ہے جو کم از کم پر مطمئین ہو۔ افلاطون اسے پاگل سقراط کہتا تھا اور ایتھنز کے عام لوگ، کہ جن میں وہ ہر دلعزیز تھا، اسے کلبی یا سنکی کہتے تھے۔ ایک بار شریر لڑکوں نے جب اس کا بیرل توڑ دیا تو ایتھنز کے باسیوں نے ایک اور بیرل کا انتظام کر دیاتھا. ۔شان و شوکت اور دولت کی نمائش سے نفرت کرنے والے دیوجانس نے ایک دفعہ عالیشان قالینوں اور مخملیں گائو تکیوں سے سجی محفل میں میزبان کے منہ پر تھوک دیا۔اور پھر یہ کہتے ہوئے معافی مانگ لی تھی کہ وہاں اسے سب سے کمتر اس کا چہرہ ہی نظر آیا کہ جس پر وہ بلا جھجھک تھوک سکے۔ سکندرسے اس کی ملاقات دلچسپ تھی۔ ایتھنز کا حکمران جب گھوڑے سے اتر کر دھوپ میں لیٹے دیوجانس کے سامنے آکھڑا ہوا تو گفتگو کچھ یوں ہوئی۔ سکندر: میں سکندر اعظم ہوں۔ دیوجانس: میں ہوں دیوجانس سنکی۔سکندر: کیا آپ مجھ سے خوف زدہ نہیں؟ دیوجانس: تم اچھے ہو یا برے؟ سکندر:اچھا. دیوجانس:اچھوں سے کون ڈرتا ہے۔ مستقبل کا ارادہ؟ سکندر: پورے یونان کی فتح دیوجانس:پھر؟ سکندر:پھر ایشیائے کوچک کی۔ دیوجانس:پھر؟ سکندر: پھر پوری دنیا کی فتح اور حکمرانی۔ دیوجانس:اور پھر؟ سکندر:آرام اور چین کی زندگی۔ دیوجانس:پھر کیوں نہ تم آج ہی سے آرام اورچین کی زندگی شروع کردو۔ سکندر لاجواب ہو کر رخصت ہونے لگا تو کہا، دنیا کی کوئی نعمت کسی آسائش کی طلب ہو تو مجھے بتائیے۔ آپ کی خدمت میں حاضر کردی جائے گی۔ دیوجانس بولا :ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہوجاوتاکہ دھوپ مجھ تک پہنچ سکے۔پھر سرآغا وال کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔خواتین و حضرات دیوجانس کی کہی ہوئی باتیں قابل غور ہیں۔وہ کہتا ہے صرف ایک خیر، وہ ہے علم۔ صرف ایک شر، وہ ہے جہالت۔ نالائق شاگرد کے بجائے اس کے استاد کی پٹائی کیوں نہ کی جائے. کامیاب قوم کی بنیاد نوجوانوں کی تعلیم ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو ایتھنز کا نہیں دنیا کا شہری کہنے والے دیوجانس سے جب کسی نے پوچھا۔ امید کیا ہے؟تو اس نے کہا جاگے ہوئوں کا خواب۔وہ کہتا ہے سب چیزیں خدا کی ملکیت ۔ عقلمند خدا کے دوست۔ دوستوں کی ملکیت مشترک۔ گویا سب کچھ عقلمند لوگوں کا۔۔۔۔۔جاری ہے