Our consciousness force us to live in a dual reality as humans. On the one hand, the objective reality of rivers, trees and lions; and on the other hand, the imagined reality of economy, nations and corporations.
میڈنگلے کے باغ میں جھیل کے کنارے بیٹھے ہم پروفیسر حراری سے گفتگو کر رہے تھے . پروف بولے . سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہم انسانوں میں پچھلے تیس ہزار برسوں میں کوئی جذباتی ، ذہنی اور جسمانی تبدیلی نہیں ہوی ہے۔ گویا تیس ھزار سال پہلے کا انسان بالکل ھم جیسا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ھمارے ذہنوں میں شعوری انقلاب برپا ہوا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس دن سے لے کر آج تک ھم انسان دوہری حقیقت میں زندگی بسر کر رھے ھیں۔ وجودی اور تمثیلی حقیقت میں ایک ساتھ۔ وجودی حقیقت؟ میں نے سوالیہ انداز میں دہرایا۔ بولے۔ وجودی حقیقتیں ہمارے شعور سے باہر بھی اپنا وجود رکھتی ہیں جیسے درخت ، دریا ، پہاڑ اور انسانی جسم وغیرہ ۔ جبکہ تمثیلی حقیقتیں ہمارے اجتماعی شعور میں تو موجود ہوتی ہیں ۔ لیکن انسانی شعور سے باہر ان کا کوی وجود نہیں ہوتا۔ جیسے قومیت ، مذہب، معیشت ، ملکی قوانین ، جمھوریت یا کارپوریشن جیسے گوگل، ٹویوٹا وغیرہ. کچھ اور وضاحت؟ زن نے کہا۔ کہنے لگے. یاد رہے تمثیل یا کہانی جھوٹ نہیں ھوتی بلکہ اس سے مراد ہے فکشن ، لوک روایت ، ثقافتی داستان یا اجتماعی طور پر فرض کر لی گئی کوی حقیقت۔ تمثیلی حقیقت بہت سی صورتوں میں انسانی معاشرے کے لیے بے حد کارامد ھوتی ہیں۔ کسی مفروضے کو اجتماعی طور پر سچ تسلیم کرلینے سے باہمی رابطہ اور معاملات کا طے کرنا اسان ھو جاتا ھے۔ معیشت ، نظام حکومت ، کرنسی نوٹ ، قومیت اور ملکی سرحدیں بے حد کارامد لیکن محض اجتماعی طور پر فرض کر لیے گئے سچ ہیں. جیسے جیسے انسان ترقی کرتا چلا گیا تو تمثیلی حقیقتیں زیادہ اہم ہوتی چلی گئیں۔ ذرا غور کرو تو قانون معیشت اور قومیت میں سے کوئی بھی چیز پہاڑ دریا یا شیر کی طرح حقیقی وجود نہیں رکھتی لیکن ان سب کی موجودگی پر ھم سب کا مشترکہ یقین انہیں حقیقت بنا دیتا ہے. پھر یہ ھماری زندگی کی ایسی ہی حقیقتیں بن جاتی ہیں جیسے دریا پہاڑ اور شیر. آج ہم اپنی بقا کے لیے یے دریا پہاڑ یا شیر سے زیادہ امریکہ ، گوگل اور بینک اکاونٹ جیسی تمثیلی حقیقتوں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں. جیک نے کہا . تو پھر جھوٹے سچے خواب اور تمثیل میں کیا فرق ہوا ؟ بولے. بنیادی فرق اجتماعی یقین کا ہے . جیسے کسی بچے کے ذہن میں اس کا کوی فرضی دوست جس کا اس دنیا میں کوئی وجود نہیں ایک مضحکہ خیز خیال مانا جاے گا ۔ لیکن جب بہت سارے لوگ کسی تمثیلی حقیقت کو سچ مان لیتے ہیں جیسے قومیت ، حکومت یا لمیٹڈ کمپنی مثلآ ٹویوٹا تو پھر اس کا وجود تمثیلی حیثیت میں مستحکم ہو جاتا ہے اور وہ حقیقت تسلیم کر لی جاتی ہے۔ اب اگر ایک دو یا چند افراد اس سے انکاری بھی ہو جایں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑےگا۔ لیکن اگر اکثریت اس تمثیلی حقیقت سے منکر ہو جاے تو اس کا وجود یا تو ختم ہو جاتا ہے یا نئی تمثیل کے مطابق تبدیل ہو جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کے انسان اور اس کا سکھی رہنا جو کہ اصل وجودی حقیقت اور سچائی ہے اسی طرح کی تمثیلی سچائیوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ پھر اورنج جوس کا بڑا سا گھونٹ لے کر بولے . امید افزا بات یہ ہے کے تمثیلی حقیقت کو سچ مان لینے سے پیدا شدہ اجتماعی رویہ بنیادی فرضی کہانی کو تبدیل کر لینے سے تبدیل کیا جا سکتا ھے. وقت کے ساتھ اگر کہانی تبدیل ہو جاے یا کر لی جاے تو رویہ بھی تبدیل ہو جاے گا ۔ کیونکے ایسا رویہ جینیاتی مجبوری یا وجودی حقیقت نہیں ہوتا۔ گویا شعوری حقیقت ھم انسانوں پر وجودی اور جینیاتی حقیقتوں کے شانہ بہ شانہ اثر انداز ہوتی ہے۔ جبکہ دیگر جانوروں کا رویہ جینیاتی اور وجودی حقیقت کی قید میں ہے۔ انہیں رویے میں تبدیلی کے لئے جینیاتی تبدیلی کا انتظار کرنا پڑتا ھے جسے کئی لاکھ سال درکار ہوتے ھیں. میں نے کہا . تمثیلی کہانی میں تبدیلی کی کوئی مثال ؟ بولے . مثال کے طور پر ٹویوٹا کمپنی۔ اگرہم ٹویوٹا میں کام کرنے والے تمام افراد کو نیست و نابود کربھی دیں تو بھی ٹویوٹا کمپنی قائم رہے گی۔ اس عمارت کو گرا بھی دیں جس پر ٹویوٹا لکھا ہے تو بھی ہم اس کا وجود ختم نہ کر سکیں گے۔ کیونکہ وہ ایک وجودی حقیقت نہیں قانونی تمثیلی وجود ہے اور ھم اسے قتل نہیں کر سکتے۔ ھاں کسی جج کا فیصلہ یا قانون میں تبدیلی اس کا وجود مکمل طور پر ختم کرسکتی ہے اور یوں وہی عمارت، اس کے ملازمین اور بنائی ھوی کاریں نئے نام اور نئی قانونی حیثیت اختیار کرلیں گی. گویا ہم سب کی باہمی رضامندی اور قانونی دستاویز پر لکھی اس رضامندی کا اظہار اوراس تمثیلی وجود کو حقیقت مان کر پر اعتماد سرمایہ کاری ٹویوٹا کمپنی کا تمثیلی وجود ھے …. جاری ہے