دوستی یا سونا ، نواں انشا ، امریگو کہانی ، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی ، شارق علی
سیون سیٹر لیکسس تیزرفتاری سے انٹر سٹیٹ فری وے پر رواں دواں تھی۔ ہماری منزل ورجینیا میں واقع گریٹ فالز پارک تھا۔ میزبانوں نے کافی سوچ بچار کے بعد میری لینڈ ، واشنگٹن ڈی سی اور شمالی ورجینیا کے آس پاس کسی رلچسپ تفریحی مقام میں سے گریٹ فالز ورجینیا کے دیکھنے کا انتخاب کیا تھا۔ فیئر فیکس کاؤنٹی میں واقع یہ نیشنل پارک قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک شاندار جگہ ہے۔ میں کھڑکی سے ارد گرد دیکھتے سوچنے لگا کہ ہم جس ملک امریکہ میں اس وقت محو سفر ہیں وہ امریکہ کولمبس نے دریافت نہیں کیا تھا ۔ وہ تو پہلا یورپی تھا جس نے بہاماس جزیرہ نما کو دیکھا، وہ جس جزیرے پر اترا اسے مقامی لوگ گواناہینی کہتے تھے اور اس نے اسے سان سلواڈور کا نام دیا ۔کولمبس نے اسپین سے بحر اوقیانوس کے اس پار چار بار سفر کیا تھا۔ چودہ سو بانوے ، پھر ترانوے ، اٹھانوے اور آخری بار پندرہ سو دو میں . لیکن اپنے بعد کے سفروں میں بھی وہ بہت دور جنوب میں، وسطی اور جنوبی براعظم امریکہ تک تو گیا لیکن موجودہ متحدہ ہاے امریکہ تک وہ کبھی نہیں پہونچا۔ میری لینڈ سے ورجینیا کی سمت جاتے والی ٹریفک میں بلا ضرورت بے چینی نظر نہ آتی تھی۔ بلکہ اطمینان کا خوشگوار احساس تھا۔ شاید اس کی وجہ خود ہمارا چھٹیوں کی فرحت انگیز ذہنی کیفیت میں ہونا تھا۔ امریکہ کی انٹرسٹیٹ فری ویز پر سفر کرنا ایک انوکھا تجربہ ہے . کہتے ہیں پورے امریکہ میں ان فری ویز کی مکمل لمبائی اڑتالیس ہزار میل کے لگ بھگ ہے۔ عام حالات میں یہ تیز رفتار اور کارامد سفر کا بہترین ذرئعہ ہیں. لیکن ڈرائیونگ کی زرا سی غفلت جان لیوا حادثوں سے بھی دوچار کر سکتی ہے۔ میری لینڈ سے نکل کر ورجینیا کی سمت آگے بڑھے تو فری ویزچھوڑ کر ہم قدرتی جنگلوں کے درمیان سے ہو کر گزرتی نسبتا چھوٹی سڑک پر سفر کرنے لگے۔ اس لہراتی سڑک پر مجھے زیادہ دلکشی کا احساس ہوا ۔ قدرتی گھاس ، لہلہاتے کھیتوں اور انگور کے آتے جاتے باغات، گھنے جنگلوں میں جا بجا بکھرے توانا درختوں میں زیادہ دلفریبی محسوس ہوی۔ کولمبس بہاماس کے جس جزیرے پر اترا وہاں کے مقامی لوگ گھاس پھوس کی معمولی سے جھونپڑوں میں رہنے کے عادی تھے۔ بیشتر لوگ لباس سے عاری تھے یا بہت کم لباس پہننے تھے۔ جب کولمبس اس جزیرے پر پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے اس کا دوستانہ استقبال کیا۔ وہ کچھ وقت وہاں گزار کر واپس اپنے جہاز پر جو ساحل سے کچھ دور لنگر انداز تھا چلا گیا۔ چند روز بعد کولمبس اور اس کے ساتھیوں نے اپنے جہازوں سے کشتیاں سمندر میں اتاریں اور جزیرے کے ساحل کے ساتھ ساتھ چلنے لگے. اس وقت تک جزیرے کے تمام قبیلوں کو اجنبی مہمانوں کی آمد کا علم ہو چکا تھا۔ مقامی لوگ ساحل کے ساتھ کھڑے ان کی ٹوپیوں اور لباس کو حیرت سے دیکھتے۔ فضا بالکل دوستانہ تھی۔ لیکن کولمبس کا ذہن کسی اور ہی سمت مصروف عمل تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ جزیرے کے لوگ بہت سادہ ہیں ۔ ان کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں۔ نہ جزیرے پر کوئی محل یا شاندار عبادت گاہ ہے۔ لیکن ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنی ناک میں خالص سونے کی بالیاں پہن رکھی ہیں۔ اسے لگا کہ ہو نہ ہو وہ مارکوپولو کے بتائے ہوئے ایشیائی ملک جاپان یا چین کے قریب کسی جزیرے پر پہنچ چکا ہے۔ مارکو پولو نے لکھا تھا کہ ایشیائی ملکوں کے گھروں کی چھتیں سونے کی ہیں. اس کے قریب جزیروں کا ایک چھوٹا سا سلسلہ موجود ہے. کولمبس نے اس وقت کے دیگر یورپی نوجوانوں کی طرح مارکو پولو کا یہ سفرنامہ شوق سے پڑھا تھا۔ اسی سفر نامے کی بنیاد پر اس نے ایشیا یعنی جاپان اور چین کا یہ مغربی روٹ دریافت کرنے کی مہم شروع کی تھی. اس کا مقصد صرف ایک تھا . زیادہ سے زیادہ سونا حاصل کیا جاسکے… جاری ہے