Despite the Supreme Court decision, members of sexual minority e.g. transgenders in Pakistan are still deprived of their basic human rights. Mindsets are different than decisions in court
میں چوتھے سال کا طالب علم تھا اور غریب مریضوں کو مفت علاج پہنچانے کی انجمن کا پرجوش شریک. عارف سے میری ملاقات ایک ایسے سماجی کارکن کی حیثیت سے ہوئی جو اکثر غریب خواجہ سرا مریضوں کو لے کر ہمارے ہسپتال آتا اور ان کی بھرپور مدد کرتا تھا . ٹی ہاؤس میں اس وقت چہل پہل واجبی سی تھی. پروف نے گفتگو جاری رکھی . دوستی بڑھی تو معلوم ہوا کہ جوڑیا بازار میں عارف کی دوکان ہے اور تین غیر شادی شدہ بہنوں کی ذمہ داری بھی اسی کے کندھوں پر . اسی کے ساتھ مجھے کئی خواجہ سراوں سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملا. کوئی کہتا. لوگ ہمیں یوں دیکھتے ہیں جیسے ہم آسمان سے گرے ہوں. ہمیں بھی تو خدا ہی نے بنایا ہے. گھر والوں نے گھر سے نکال دیا. بس محلے کے بچوں کے ساتھ کھیل کود کر خوش ہو جاتی ہوں. یہ احساس گلیوں بازاروں میں ساتھ چلتا ہے کہ لوگ ہمیں اچھا نہیں سمجھتے. میرا بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش ہے اور میں گلیوں میں دربدر. ہم دونوں ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے. کاش میرے بھی بچے ہوسکتے. میں کام کرنا چاہتی ہوں لیکن شاید میری زندگی میں عزت کی نوکری نہیں لکھی. عارف کبھی ترنگ میں ہوتا تو کنٹین کی ٹیبل پر طبلہ بجاتے ہوئے یہ گیت گاتا ” تم نغمہ ماہ و انجم ہو تم دل کا سلگنا کیا جانو ” . پھر ایک دن اس نے مجھے اپنی میڈیکل رپورٹ دکھائی اور میں دنگ رہ گیا، وہ پیدائشی غیر مبہم جنسی اعضاء کی وجہ سے نہ تو مرد تھا اور نہ عورت . لیکن سماجی ذمے داریوں کے تحت اس نے مرد کا روپ دھارا ہوا تھا. خواجہ سرا ہونے کی سائنسی بنیاد کیا ہے؟ سوفی نے پوچھا . پروف بولے . جب ماں کے پیٹ میں بچے کی افزائش کا آغاز ہوتا ہے تو پہلے چھ ہفتے تک وہ محض فرد ہوتا ہے . مرد یا عورت کی تخصیص کے بغیر محض ایک انسان . سچ پوچھو تو یہ ہی ہماری بنیادی شناخت ہے. انسان ہونا اور اسی حیثیت میں تمام انسانی حقوق کا حقدار ہونا . چھ یا سات ہفتے کے بعد پیچیدہ جینیاتی اور ہارمونل اثرات کی وجہ سے جنسی اعضا مرد یا عورت کی شناخت کے لحاظ سے واضح ہونا شروع ہوتے ہیں . انسانی دماغ کی نشو و نما بھی آگے بڑھتی ہے . یوں تو دماغ کی بنیادی ساخت ایک جیسی ہی ہے لیکن عورت اور مرد کے دماغ میں مخصوص انفرادیت کی وضاحت اب ممکن ہو گئی ہے . افزائش کے اس پیچیدہ عمل کے دوران ایسا ممکن ہے کہ کسی شخص کے دماغ کی افزائش عورت کی انفرادیت لئے ہوے ہو لیکن جنسی اعضاء مرد کے ہوں . جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ڈاکٹر سامنے نظر آنے والی شہادتوں یعنی جنسی اعضاء کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی کیونکے وہ بچے کے ذہن کی ساخت کو براہ راست دیکھ نہیں سکتے. ماں باپ اسی شناخت کے تحت بچے کی پرورش کرنا شروع کر دیتے ہیں . مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب وہ بظاہر لڑکا شعور مند ہو کر اپنی جنسی شنا خت سے متعارف ہو تا ہے. اسے پتا چلتا ہے کہ وہ ذہنی لحاظ سے مرد نہیں عورت ہے. پھر وہ مسلسل نفسیاتی تنازع کی ازیت سے گزرتا ہے. سماجی دباؤ کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو ایسا شخص اپنے ذہن کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے کیونکے ہماری اصل اور بنیادی شناخت تو ہمارا ذہن ہے. کسی دوسرے شخص یا سماج کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی بنیادی شناخت چھین سکے. خواجہ سرا یا ٹرانسجینڈر ہمارے معاشرے میں لعن طعن اور گھٹیا رویوں کا شکار کیوں ہوتے ہیں ؟ رمز نے اداس ہو کر پوچھا . بولے . حیاتیاتی سانحہ کو سمجھے بغیر اپنے جیسے انسانوں پر اخلاقی بدکرداری یا بے راہ روی کا لیبل چپکا کر بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنا نہ صرف جہالت ہے بلکے بے حد سنگدلانہ رویہ بھی. مرد اور عورت کی طرح تیسری جنس جس میں ٹرانسجینڈر اور انٹر سیکس دونوں شامل ہیں بالکل ہم اور آپ جیسے انسان ہیں. ان کی پرورش ، تعلیم، روزگار اور سماجی مقام مساوی ہونا چاہیے . انھیں معاشرے میں عزت و احترام اور وہی حقوق حاصل ہونا چاہییں جو کسی بھی مرد یا عورت کو حاصل ہوتے ہیں. کسی بھی شخص کے ذہنی اور جنسی رویوں کے حوالے سے اس کی شناخت کا احترام بے حد ضروری ہے . جس حد تک ممکن ہو سکے ایسے افراد کو مدد اور تعاون فراہم کرنا چاہیے. اگر آپ ایسے کسی فرد کے ماں باپ بہین یا بھائی ہیں تو خدا کے واسطے اس حقیقت اور خدا کی اس رضا کو تسلیم کیجیے . تیسری جنس ایک زندہ حقیقت ہے اور اسے تسلیم کرنا ہر فرد اور سماج کے لئے ضروری ہے . کسی کو یہ حق حاصل نہیں کے وہ خواجہ سرا افراد کو ذہنی طور پر غیر متوازن ، نفسیاتی مریض یا اخلاق باختہ قرار دے سکے—— جاری ہے