Skip to content
Home » Blog » حتوشہ: ہزار خداؤں کا بھولا بسرا شہر

حتوشہ: ہزار خداؤں کا بھولا بسرا شہر

  • by

حتوشہ: ہزار خداؤں کا بھولا بسرا شہر

✍️ شارق علی
ویلیوورسٹی

یہ تصویر ماچو پیچو کی نہیں ہے۔ بلکہ اُس عظیم شہر کی ہے جو ماچو پیچو کی تعمیر سے دو ہزار سال قبل، اناطولیہ کے قلب میں آباد تھا۔ یہ تھا حتوشہ, ہِٹی سلطنت کا دارالحکومت۔

حتوشہ کی بنیاد تقریباً 1600 قبل مسیح میں موجودہ ترکی کے علاقے بوغازکالے کے قریب رکھی گئی۔ شہر کو چھ کلومیٹر طویل دیواروں نے گھیر رکھا تھا، جن میں شیر دروازہ اور ابوالہول دروازہ جیسے شاندار داخلی راستے شامل تھے۔ شہر کی ترتیب میں نچلا حصہ عام آبادی اور عبادت گاہوں کے لیے مخصوص تھا، جبکہ اوپری حصہ محلات اور مندروں پر مشتمل تھا, جو اُس دور کی بہترین شہری منصوبہ بندی کی مثال ہے۔

حتوشہ کی سب سے قیمتی میراث اس کے کتب خانوں میں محفوظ ہزاروں مٹی کی تختیاں ہیں، جن پر مختلف زبانوں میں میخی رسم الخط میں تحریریں کندہ ہیں۔ انہی میں دنیا کا پہلا تحریری امن معاہدہ بھی شامل ہے، جو ہٹی سلطنت اور مصر کے درمیان جنگِ قادش کے بعد طے پایا تھا۔

حتوشہ کو “ہزار خداؤں کا شہر” بھی کہا جاتا ہے، جو ہٹی قوم کے مذہبی عقائد اور کثرتِ دیوتا پر ایمان کی عکاسی کرتا ہے۔

فرانسیسی ماہرِ آثارِ قدیمہ شارل ٹیکسئیر نے 1834 میں اس شہر کو دوبارہ دریافت کیا، اور 1986 میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کر لیا۔

آج حتوشہ خاموشی سے اُس دور کی گواہی دیتا ہے جہاں تاریخ، عقیدہ اور سفارت کاری ایک ساتھ چلتے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *