جنگلوں اور دریاؤں کا دیس
گیارہویں قسط
شارق علی
ویلیو ورسٹی
آج کانفرنس کا تیسرا روز تھا۔ صبح کا سیشن خصوصی طور پر لاوچارا جنگل کی سیر کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ تمام ڈیلیگیٹس دو منی بسوں میں سوار ہو کر لاوچارا جنگل کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ کوئی صبح سات ساڑھے سات بجے کا وقت ہوگا۔ پروگرام میں جنگل کے بیچوں بیچ ناشتہ بھی شامل تھا۔
سری منگل کے قریب واقع یہ قدرتی جنگل گھنے درختوں، نایاب پرندوں، اور دلکش مناظر کے لیے مشہور ہے۔ مقررہ مقام پر پہنچتے ہی ہمیں مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا تاکہ ایک دوسرے پر نظر رکھی جا سکے اور کوئی اکیلا ہو کر جنگل کی بھول بھلیوں میں نہ کھو جائے۔ میری ٹولی میں مائیکل پیک، شان فالڈر، اور رچرڈ نبوکو شامل تھے۔ گائیڈ نے ہمیں جنگل کی دلفریب خوبصورتی اور دلچسپ حقائق کے بارے میں بتایا، لیکن یہ جنگل اپ اپنا تعارف تھا۔
بانس کے لمبے درخت، سرسبز ٹیلے، اور دھوپ کی کرنیں جو پتوں سے چھن کر زمین پر خوبصورت نقش و نگار بناتی تھیں۔ پرندوں کی سریلی آوازیں اور پتوں کی سرسراہٹ ماحول کو اور بھی دلکش بنارہی تھی۔ چلتے چلتے ہم نے ایک ہولر بندر کو درختوں پر جھولتے دیکھا، اور ایک ہرن کی جھلک نظر ائی جو ہم سے شرما کر جھاڑیوں میں جا چھپا تھا۔
اس جنگل کی خوبصورتی دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں بنگلہ دیش کے دیگر جنگلات اور دریاؤں کا خیال آیا۔ یہاں کا سندربن دنیا کا سب سے بڑا مینگروو جنگل ہے، جو بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ یہ رائل بنگال ٹائیگر کا مسکن ہے اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ سندربن میں موجود مینگروو درختوں کی جڑیں پانی کے اوپر نظر آتی ہیں، جو اس کی خاصیت ہے۔
یہ جنگل کاربن کے ذخیرے کے طور پر کام کرتے ہیں اور دنیا کے ماحولیاتی توازن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کو “دریاؤں کا ملک” کہا جاتا ہے۔ یہاں تقریباً 700 دریا بہتے ہیں۔ ان میں گنگا (پدما)، براہمپترا (جمنا)، اور میگھنا اہم ہیں۔ یہ دریا زراعت، ماہی گیری، اور نقل و حمل کے لیے اہم ہیں لیکن ان کی سالانہ طغیانی کبھی زرخیزی کا ذریعہ اور کبھی تباہی کا سبب بنتی ہے۔
جنگل کی سیر کے بعد ہمیں کھاشیا قبیلے کے گاؤں لے جایا گیا۔ یہ لوگ بنگلہ دیش کے دیگر باشندوں سے مختلف نظر آتے ہیں، اور ان کے خد و خال برمی لوگوں سے مشابہ ہیں۔ ان کے بانس اور لکڑی سے بنے روایتی گھروں کی سادگی اور خوبصورتی قابلِ دید تھی۔ ہمیں چند گھروں کے اندر جانے کی اجازت ملی، جہاں ان کی ثقافت اور روزمرہ زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
یہاں کے لوگ مہمان نواز اور خوش اخلاق تھے۔ ان کے ہاتھ سے بنے برتن اور دستکاری کے نمونے ان کی تہذیب کی خوبصورت عکاسی کرتے تھے۔ کئی ساتھیوں نے ان یادگار چیزوں کو خرید کر اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا۔
پھر جنگل کے سرسبز علاقے میں سب نے مل کر ناشتے کا لطف اٹھایا۔ پراٹھا، لوکی کی سبزی، اور گرم چائے کا یہ سادہ سا ناشتہ دل موہ لینے والا تھا۔
سیر کا اختتام لاوچارا جنگل کے حسن، کھاشیا قبیلے کی مہمان نوازی، اور سادہ ناشتے کی خوشبو کے ساتھ ہوا۔ یہ یادیں ہمیشہ دل کو بہلاتی رہیں گی۔۔۔۔۔جاری ہے