Is it true that the secret of human race success is large-scale flexible cooperation based on mutually agreed assumptions? This collective belief on fiction has made us masters of the world.
دو دن سے مسلسل بارش ہورہی تھی اور کہیں آنا جانا ممکن نہ تھا۔ کچھ دیر کو وقفہ ھوتا بھی تو اتنا مختصر کے محض کھڑکی سے سرسبز منظر کا لطف اٹھایا جا سکتا۔ زیادہ تر وقت گپ شپ میں گزرتا۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ پروفیسر حراری کا میڈنگلے میں قیام دو مہینوں کے لئے تھا۔ اس دوران ان کے کئی لکچر کیمبرج، آکسفورڈ اور لندن کی یونیورسٹیز میں پہلے سے طے شدہ تھے۔ ان کا یوں ہم طالب علموں کے ساتھ گھل مل جانا ھم سب کو بہت اچھا لگا تھا۔ ہم خوش قسمت تھے کہ چلتے پھرتے ان کے علم اور تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ صبح ناشتے پر ملے تو میں نے پوچھا۔ کسی خطرناک جنگل میں جہاں خونخوار جنگلی جانور جان کے دشمن ھوں خطرات سے آگاہ کرنے والی سیدھی سادھی زبان زیادہ کارامد ھو گی نہ کے داستان گوی ؟ پھر گپ شپ زبان کا استعمال ہمیں کیسے سپرپاور بناتا ہے ؟ بولے۔ بلا شبہ خطرے سے آگاہ کرنے والی زبان قدیم انسان کی بقا میں مددگار ثابت ھوی تھی۔ یوں تو چیونٹیاں اور شہد کی مکھیاں بھی آپس میں تعاون کرتی ہیں لیکن بہت ہی محدود انداز میں۔ اور حالات تبدیل ہو جایں تو کوی تبدیلی بھی ممکن نہیں۔ لیکن اگر ہم بھیڑیوں اور چمپنزیز کی مثال لیں تو ان کا باہمی تعاون شہد کی مکھیوں سے زیادہ بہتر اور لچکدار ھے۔ وہ دشمن اور حالات کے مختلف ھونے کی صورت میں اپنے تعاون کی نوعیت کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں۔ یعنی اگر حملہ آور چیتا ہو یا دوسرے چمپنزیز کا غول تو حکمت عملی اسی حساب سے کچھ اور ہوگی۔ لیکن ان کا آپس کا یہ باہمی تعاون سو یا زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو جانوروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ وہ صرف انہی پر بھروسا کرتے ہیں جنہیں وہ براہ راست حیثیت میں جانتے ہوں۔ جب کہ گپ شپ زبان نے بہت بڑے پیمانے پر اجتماعی انسانی تعاون کو ممکن بنایا جو ھماری طاقت کا اصل راز ہے۔ اس سے پہلے تاریخ میں کسی جاندار کے لیے یہ کارنامہ انجام دینا ممکن نہ ھو سکا تھا۔ جیک نے کہا۔ وہ کیسے؟ بولے۔ گپ شپ زبان کا کمال یہ ہے کہ فرض کر لی گئی حقیقت پر اتفاق کر لینے کے بعد لاتعداد اجنبیوں کے ساتھ بے حد لچک دار تعاون کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔عظیم انسانی تعاون کی کوی مثال دیکھنا چاھو تو کسی موجودہ یا گزری ھوی حکومت یا عظیم عبادت گاہ یا قدیم شہر کے کھنڈرات کو دیکھ لو۔ ان سب کی بنیاد وہ مفروضے ہیں جنہیں اجتماعی طور پر درست تسلیم کرلیا گیا ھے۔ یہ سب کچھ ہماری زبان اور اجتماعی تصوروخیال کے نتیجے میں پیدا ھونے والے تعاون ہی سے ممکن ہو سکا ہے۔ عبادت گاہوں یا قومیت پر مبنی سلطنتوں کی جڑیں روایتی کہانیوں سے جاملتی ہیں جنھیں اجتماعی سچ سمجھ لیا گیا ہے۔ لاتعداد اجنبی ہندو جو ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں ہندوتوا کی کہانی پر یقین رکھنے کی وجہ سے بے گناہ مسلمان بستیوں کو آگ لگانے میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ھیں۔ مفروضات اور کہانیاں ہی کارپوریٹ دیوتا تشکیل دیتی ہیں۔ یہ فکشن ہی تو ہے جو کاغذ کے ٹکڑے جسے ہم دولت کہتے ہیں کو ہم انسانوں سے بھی زیادہ محترم بنا دیتا ہے۔ یہ گپ شپ زبان کا انعام ہے کے آج ہم انسان اس زمین پر حکمران ھیں اور ھمارے کزن چمپینزیز یا تو چڑیا گھروں میں بند ہیں یا ریسرچ لیبارٹریوں میں قید جیسے تیسے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ قدیم انسان بھی اپنے بچوں سے پیار کرتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ کھیلتا تھا ۔ دشمنوں سے مقابلہ کرتا تھا جیسا کہ چمپنزیز، لنگوروں یا ہاتھیوں کا غول بھی یہ سب کچھ کرتا ہے۔ لیکن اگر زبان کے جادو سے لاتعداد اجنبیوں سے باھمی تعاون کی طاقت نہ جاگتی تو ھم انسان کبھی بھی چاند پر قدم نہ رکھ سکتے۔ ایٹم کو ریزہ ریزہ نہ کر سکتے۔ جینیٹک کوڈ کے راز افشاء نہ کر سکتے ۔ گزری ھوی تاریخ کے بارے میں حیرت انگیز کتابیں نہ لکھ سکتے۔ یہ سب باھمی تعاون کی طاقت ہی سے ممکن ہو سکا ہے۔۔۔۔۔ جاری ہے