See how helpless ancient humans were in comparison to the wild animals on this planet two million years ago
یہاں مشرقی افریقہ کے اس گھنے جنگل کی جھاڑیوں میں چھپے کچھ سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کے زن نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کی ہدایت دی ۔ پھر سرگوشی میں بولی . وہ دیکھو غار میں چھپے چند لوگوں پر مشتمل قدیم انسانی گروہ جو ادھر ادھر دیکھتے ہوے باہر نکل رہے ہیں ۔ ان کے چہروں پر کس قدر خوف و ہراس ہے ۔ یہ تھوڑا سا بھی آگے بڑھتے ھیں تو پہلے ارد گرد کسی ممکنہ شکاری جانور کے اس پاس نہ ہونے کا یقین کر لیتے ہیں۔ چھپتے چھپاتے یہ کچھ دن پہلے شیروں کے ٹولے کے کیے ظراف کے اس شکار کی لاش کی جانب بڑھ رہے جس کا گوشت تو شیر اور دیگر جانور پہلے ھی کھا چکے ھیں۔ اب تو صرف ڈھانچہ بچا ہے . وہ دیکھو اب وہ جراف کے ڈھانچے کی ہڈیوں کو اپنے نوکیلے پتھر کے اوزاروں سے چٹخ رہے ہیں. اور اب برآمد ھونے والے گودے کو چوس کر اپنی غذا حاصل کر رہے ھیں۔ کس قدر مجبور ،ذلت آمیز اور بے بس زندگی ہے ان کی. کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک دن وہ اسی زمین پر راج کریں گے ؟ دانی نے ٹائم سپکس کی پاور آف کی اور میں اور زن بیس لاکھ سال قدیم ورچول ریلیٹی سے باہر آے . ہمارے چہروں پر ابھی تک خوف تھا . کچھ دیر ریسٹ روم میں خاموشی چھای رہی . پھر سائکلو بولا . کوئی بیس لاکھ سال پہلے ابتدائی انسان یعنی ھومینڈ نے مشرقی افریقہ سے مشرق وسطہ ، یورپ اور ایشیا کی سمت سفر کرنا شروع کیا تھا ۔ اور یوں مختلف حالات کا سامنا کرنے کی وجہ سے مختلف خصوصیات رکھنے والی نسلوں کی نشاندھی ممکن ھونے لگی۔ مثلآ نیانڈرا وادی میں رہنے والے مضبوط جسم والے نیانڈراتھل۔ ہماری آج کی باقی رہ جانے والی واحد موجودہ نسل ہومو سپینز کے آباواجداد. ہومو سیپینز یعنی عقلمند انسان ۔ یا مشرقی ایشیا میں بسنے والے ہومو ایریکٹس جو نسبتا زیادہ سیدھے کھڑے ہو سکتے تھے وغیرہ ۔ انڈونیشیا کے قدیم جزیروں مثلا جاوا اور دیگر جزیروں پر جا بسنے والے ھومینڈز مخصوص حالات کے زیر اثر دلچسپ انداز میں تبدیل ہوے. قدیم انسان جب انڈونیشیا پہونچے تو اتش فشانی دھماکوں اور سمندری سیلاب کے باعث بڑا زمینی خطہ چھوٹے جزیروں میں بٹ گیا۔ ان ہی میں ایک جزیرہ فلوریس بھی تھا۔ غذا کی کمی کی وجہ سے پہلے تو طویل قامت قدیم انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کیونکے جزیرے پر غذا محدود تھی اور انھیں باقی رہنے کے لئے زیادہ غذا درکار تھی ۔ جبکہ چھوٹے قدکے لوگ کم غذا کے باوجود زندہ رہ سکے اور نسل در نسل تقسیم ہوکر بونے بن گئے۔ جن کا قد تین فٹ اور وزن محض سو پاؤنڈ کے قریب ہوتا تھا۔ فلوریس کے جزیرے پر سن دو ہزار چار میں ایسے قدیم انسانوں کے نو ڈھانچے ملے جو اس واقعے کی سائنسی تصدیق کرتے ہیں. یہ ڈھانچے چوہتر ہزار سال پرانے ہیں . لیکن قدیم انسان دوسرے جانوروں سے اس قدر ڈرا سہما کیوں رہتا تھا ؟ میں نے .پوچھا. سائکلو بولا . دیگر جانوروں کے مقابلے میں قدیم انسان کے بھیجے کا سائز زیادہ بڑا تھا . لیکن اسے اس خصوصیت کی خاصی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی۔ بڑے بھیجے کا مطلب تھا بڑا سر اور دو پیروں پر چلنے کی وجہ سے گردن اور پشت میں آرتھرائٹس کا کم عمری ہی میں ھو جانا۔ قدیم عورتوں کے پیلوس کا تنگ ہونا اور بڑے سر والے بچوں کی پیدائش کے دوران عورتوں کی زیادہ ہلاکتیں. پھر بڑا دماغ غذا سے حاصل شدہ زیادہ تر توانای خرچ کر دیتا تھا. اور اسی لیے ہاتھوں اور پیروں کے عضلات یعنی گوشت پوست اس قدر مضبوط نہ ہوتے تھے جیسا کہ دیگر شکاری جانوروں کے. شکار کرنے یا خطرے کی صورت میں فرار ہونے میں دیگر جانور قدیم انسان سے بھتر کارکردگی رکھتے تھے ۔ اسی لئے اسے جنگلوں اور غاروں میں چھپ چھپا کر اور پھل ، بیج ، سبزیاں اور دوسرے جانوروں کے بچے کھچے شکار کا گوشت کھا کر اپنی زندگی گزارنی پڑتی تھی. گویا بڑے دماغ رکھنے والے قدیم انسان کو آگ جلانا سیکھنے اور پتھر کے کچھ اوزار بنا لینے کے باوجود خوف اور بے کسی کی زندگی بسر کرنا پڑتی تھی …… جاری ہے