The transition of humans from nomadic hunting gathered lifestyle to settled sedentary agricultural life surely improved the survival of human society. Did it result in achieving happiness at an individual level?
میڈنگلے ہال سے کیمبرج میں واقع ہمارے یونیورسٹی کیمپس کا فاصلہ تقریبآ چار میل ہے۔ اچھے موسم میں سائیکلوں پر کوی آدھے گھنٹے کی مسافت۔ لیکن آج کلاس میں پہونچے کی جلدی نہ تھی. چھٹی کے دن پروف کو کیمپس کی سیر کرانا مقصود تھا ۔ ھم سڑک کے دونوں جانب قطار سے لگے بلند درختوں اور اونچے نیچے سرسبز و شاداب کھیتوں اور ان کے کنارے بھولوں سے لدی جھاڑیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دھیرے دھیرے پیڈل چلا رہے تھے۔ سب سے آگے جیک پھر پروف. ان کے پیچھے جینز اور خوشرنگ جیکٹ اور میرون ہیلمٹ پہنے زن اور آخر میں زن کی اس خوش ذوقی کو دل ہی دل میں سراہتا لیکن اس کی توجہ سے بچتا ہوا میں۔ رات بھر کی بارش کے بعد صبح کی نرم دھوپ میں یہ سب کچھ کسی اور ہی دنیا کا منظر معلوم ہوتا تھا. میں بے حد خوش تھا . الگ سائیکل ٹریک نہ ہونے کی وجہ سے ہم سب کو بہت احتیاط سے سڑک کے بائیں جانب آگے پیچھے چلنا پڑ رہا تھا۔ آدھے راستے سے کچھ تھوڑا ہی آگے گئے ہوں گے تو ایک چھوٹے سے خوش نما پارک میں کھلے پھولوں پر نظر پڑی۔ پروف نے ھاتھ کے اشارے سے کچھ دیر یہاں رکنے کا ارادہ ظاہر کیا . ھم سایکلیں قریب کے درخت کے نیچے کھڑی کر کے جنگ عظیم کے شہیدوں کی سنگی یادگار کے سامنے کھلے سرخ گلابوں کا رخ کیے بنچ پر بیٹھ گئے۔ زن نے پروف سے پوچھا . شعوری انقلاب کے بعد انسانی تاریخ میں کون سی بڑی تبدیلی آئ ؟ کہنے لگے . آج سے تقریبا دس سے بارہ ہزار سال پہلے دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف اوقات میں اس وقت کے انسانوں کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔ یہ تھا پہلا زرعی انقلاب. اس انقلاب نے اس دور کے انسانوں کے رہن سہن اور ان کے سماج میں بنیادی اور دوررس تبدیلیاں پیدا کیں۔ ہم دو ہزار سال پر محیط نسبتاً آہستگی سے انیوالی تبدیلی کو انقلاب اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس نے انسانی سماجی ارتقا میں بے حد اہم پیش رفت کی تھی . انسانی گروہوں نے خانہ بدوشی اور جنگلوں اور غاروں میں رہنا چھوڑ کر اور شکار اور پھلوں کی غذا پر بنیادی انحصار ختم کر کے دریاؤں کے کنارے آباد ہونا اور فصلیں اگانا اور جانوروں کو پالنا شروع کردیا. یہ بنیادی سماجی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی کے آغاز کے حوالے سے بے حد عظیم تبدیلی تھی. مستقل رہائش کے لئے گاؤں بسے تو زمین اور فصل کی ملکیت کا سوال اٹھا . یوں تحریر کا آغاز ہوا. ماحول کی تبدیلی اور مستقل رہائش گاہوں میں لوگ اور گوداموں میں غذا کی فراوانی محفوظ ہوئی تو ابادی میں تیزی سے اضافہ ہوا. سبزیوں اور ایک جیسی غذا یعنی اجناس کا زیادہ استعمال شروع ہوا. اگلے سال قحط کی فکر نے اضافی غذا کو محفوظ کرنے کے انتظامات شروع کیے۔ پھر تو وہ سب لوگ جنگل کی خانہ بدوش زندگی سے جان چھڑ ا کر بے حد خوش ہوے ہوں گے؟ میں نے بات بڑھائی . کہنے لگے . ارتقا بدلتی صورت حال میں بقا سے جڑی جد و جہد کا نام ہے. جبکے خوشی کا تعلق انسانی شعور سے ہے . خوشی تب ہی میسر ہوتی ہے جب انصاف مہیا ہو . ہوا یوں کہ جس زر خیز زمین پر وہ فصلیں اگاتے تھے ان پر دوسرے انسانی گروہوں کے قبضے کے ممکنہ خطرے سے حفاظت کے لئے جنگجو جتھے قائم ہوے . ان کا سردار حکمران بن گیا. آسمانی بلاؤں اور آفتوں سے بچاؤ اور اچھی فصلوں کی امید دلانے کے لئے مذہبی عالم وجود میں اے. اگرچے محنت میں حکمران اور مذہبی عالم شامل نہ تھے لیکن ان کسانوں کو اپنی محنت کا بیشتر حصہ ان لوگوں کو دینا پڑتا تھا . یہ اقلیتی طبقہ محنت میں تو شریک نہ تھا لیکن طاقت کے بل بوتے پر زیادہ حصّے کا حقدار ٹہرتا تھا ، یہ ساری صورت حال سماج کے ارتقا کے لئے تو بے حد فائدہ مند ثابت ہوئی. لیکن انفرادی زندگی کے لحاظ سے وہ لوگ جو فصلیں اگاتے تھے اور جن کی محنت کے نتیجے میں یہ ساری خوشحالی میسّر تھی اقلیتی حکمران طبقے کے مقابلے میں بیشتر صورتوں میں بد حال اور نا خوش ہی رہے. ان دہقانوں کو غذا حاصل کرنے کے لئے خانہ بدوشی کے دنوں کے مقابلے میں اب زیادہ اور طویل مدتی محنت کرنا پڑتی تھی. جبکے وہ جنگلوں میں نسبتاً آسانی سے اپنی غذا جو زیادہ متنوع ھوتی تھی حاصل کر لیا کرتے تھے. ابتدائی دور کے ان دہقانوں کو ایک سا مہیا اناج زیادہ مقدار میں کھا کر اور نسبتاً تنگ اور غیر صحتمند رہائش گاؤں میں زندگی گزارنے کے سبب زیادہ بیماریوں کا سامنا رہتا تھا. اگرچہ اس بات میں کوئی شک نہ تھا کے اب ان کے پاس غذا کی فراوانی تھی اور ان کی بقاء اب زیادہ مستحکم تھی…. جاری ہے