بس سٹینڈ پر : مجید امجد
”خدایا اب کے یہ کیسی بہار آئی“
” خدا سے کیا گلہ بھائی!
خدا تو خیر کس نے اس کا عکسِ نقش پا دیکھا
نہ دیکھا بھی تو کیا دیکھا اور دیکھا بھی تو کیا دیکھا
مگر توبہ میری توبہ، یہ انساں بھی تو آخر اک تماشا ہے
یہ جس نے پچھلی ٹانگوں پہ کھڑے ہونا بڑے جتنوں سے سیکھا ہے
ابھی کل تک جب اس کے ابروؤں تک موئے پیچاں تھے
ابھی کل تک جب اس کے ہونٹ محرومِ زنَخداں تھے
ردائے صد زماں اوڑھے لرزتا، کانپتا بیٹھا
ضمیرِ سنگ سے بس ایک چنگاری کا طالب تھا
مگر اب تو یہ اونچی ممٹیوں والے جلو خانوں میں بستا ہے
ہمارے ہی لبوں سے مسکراہٹ چھین کر اب ہم پہ ہنستا ہے
خدا اس کا، خدائی اس کی، ہر شے اس کی، ہم کیا ہیں
چمکتی موٹروں سے اڑنے والی دھول کا ناچیز ذرہ ہیں
ہماری ہی طرح جو پائمالِ سطوتِ میری و شاہی ہیں
لکھوکھا، آبدیدہ، پا پیادہ، دل زدہ، واماندہ راہی ہیں
جنہیں نظروں سے گم ہوتے ہوئے رستوں کی غم پیما لکیروں میں
دکھائی دے رہی ہیں آنے والی منزلوں کی دھندلی تصویریں “
” ضرور اک روز بدلے گا نظام قسمتِ آدم
بسے گی اک نئی دنیا،سجے گا اک نیا عالم
شبستاں میں نئی شمعیں، گلستاں میں نیا موسم “
” وہ رُت اے ہم نفس جانے کب آئے گی
وہ فصلِ دیر رس جانے کب آئے گی
یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی؟ “