نویں قسط
شارق علی
ویلیو ورسٹی
لگژری کوچ ویانا شہر کے مصروف بازاروں اور رہائشی علاقوں سے گزرتی ہوئی آہستہ آہستہ مضافات میں داخل ہو رہی تھی۔ شہر کی جدید عمارتوں کے درمیان کہیں کہیں باروک طرزِ تعمیر کی کلاسیکی جھلک اب کم کم دکھائی دیتی تھی۔ جدید اور کلاسیکی امتزاج کی عمارتیں نظروں سے اوجھل ہو چکی تھیں۔ اب کوچ کی کشادہ کھڑکی سے آسٹریا کے دلکش مضافات ہمیں اپنے حسن سے متعارف کروا رہے تھے۔ اس ملک کو قدرت نے ایک خاص دلکشی سے نوازا ہے۔
سبزے سے ڈھکی شاداب ڈھلوانیں، جو ہلکی اونچی پہاڑیوں پر دور تک پھیلی نظر آتی ہیں۔ جا بجا خوبصورت درختوں کے جھنڈ اور گاہے بگاہے دلکش گھروں سے مزین چھوٹے چھوٹے گاؤں۔
اگر آپ نے مشہور فلم The Sound of Music دیکھ رکھی ہے، تو آپ ان مناظر کو اپنی چشمِ تصور میں بآسانی لا سکتے ہیں۔ بعض سبزہ زاروں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے جولی اینڈریوز ابھی ان پہاڑی ڈھلوانوں پر بانہیں پھیلائے، وہی مشہور نغمہ گاتی ہوئی دوڑتی نظر آئے گی:
“The hills are alive with the sound of music…”
بلاشبہ آسٹریا کی فضا میں موسیقیت محسوس ہوتی ہے، جو ہر درخت، ہر گھاٹی، اور ہر تبدیل ہوتے منظر سے چھپ چھپ کر جھانکتی ہے۔
کوئی ڈیڑھ، پونے دو گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد، ہماری گائیڈ ٹاشا نے مائیک پر نہایت دلچسپ انداز میں ایک قصبے کے سروس اسٹیشن پر آدھا گھنٹہ رکنے کی نوید سنائی۔ پہلے تو ایک حسین قصبہ نظر آیا۔ صاف ستھرے مکانوں کی کیاریوں میں رنگ برنگے، لہلہاتے پھول۔ ایک چھوٹے سے چرچ کی پُراسرار عمارت، اور مقامی روزمرہ زندگی کی چلتی پھرتی ہلکی سی جھلک۔ پھر ہماری کوچ ایک خوبصورت سروس اسٹیشن کے پارکنگ لاٹ میں اپنے مقررہ مقام پر جا کر پارک ہو گئی۔ ہم باری باری کوچ سے اترے اور سروس اسٹیشن کے اندر داخل ہوئے۔ لکڑی کے تراشیدہ دروازے، جو تازہ پھولوں سے سجے ہوئے تھے، سے گزر کر ہم اندر داخل ہوئے تو دو تین مختلف نوعیت کے ریستوران اور چند دکانیں دکھائی دیں۔
تحفے تحائف اور یادگاروں سے سجی ایک دکان، ایک آئس کریم پارلر، اور ایک کافی شاپ بھی موجود تھی۔ ہم مرکزی ریستوران میں داخل ہوئے اور قطار بنا کر ٹرے ہاتھ میں تھامے من پسند چیزوں کا انتخاب کرنے لگے۔
یوں تو وہاں Wiener Schnitzel (وینر شنٹزل) بھی موجود تھی، جو شاید ویانا کی سب سے مقبول ڈش شمار ہوتی ہے۔ بچھڑے کے گوشت کا پسندے جیسا کٹا ٹکڑا، جسے بریڈ کرمبز میں لپیٹ کر تل لیا جاتا ہے۔ باہر سے کرکرا، اندر سے نرم۔ یہ عام طور پر آلو اور لیموں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی Tafelspitz (ٹافل شپٹز) بھی موجود تھا—بیف کے اُبلے ہوئے نرم گوشت کا ٹکڑا، جو سبزیوں، ہارس ریڈش سوس، اور آلو کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ شاہی کھانوں میں شمار ہوتا ہے۔
لیکن ان دونوں سے ہم نے بوجوہ پرہیز کیا اور Käsespätzle (کیزے شپیٹزل) کا انتخاب کیا۔ یہ آسٹرین بریڈ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر پنیر اور بھنی ہوئی پیاز ڈال کر بنایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے آسٹریا کا “میک اینڈ چیز” بھی کہتے ہیں۔
ہمارا زیادہ زور میٹھے پر تھا۔ Apfelstrudel (ایپل اسٹرودل)—خمیر شدہ میدے میں لپٹا ہوا سیب، دار چینی، کشمش اور چینی سے بنا ایک مزیدار میٹھا۔ اسے آسٹریا کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔
ہم دونوں اپنی اپنی ٹرے اٹھائے کھڑکی کے پاس والی میز پر جا بیٹھے۔ کھڑکی سے کوچ صاف نظر آ رہی تھی۔ کوچ کے ساتھ کھڑے ہمارے تین ساتھی مسافر، کھانوں کی ان نعمتوں سے بے نیاز، سگریٹ نوشی اور گپ شپ میں محو تھے اور بہت خوش بھی۔
کھانا ختم کر کے ہم کوچ میں واپس بیٹھے اور سفر دوبارہ شروع ہوا۔ اب ہم ہالشٹاٹ کے قریب پہنچ رہے تھے، اور ہماری لگژری کوچ کا انٹرٹینمنٹ سسٹم آسٹریا کے مشہور روایتی گانے پلے کر رہا تھا، جیسے “Edelweiss” اور “The Blue Danube”۔ لوگ خاموش تھے، اور فضا میں ایک خاص مدھرتا پیدا ہو چکی تھی۔
راستہ اب نسبتاً زیادہ پہاڑی ہونے لگا تھا۔ پھر سامنے ایک پہاڑ نظر آیا جسے تراش کر ایک سرنگ بنائی گئی تھی۔ تو گویا یہ سرنگ ہمارے اور ہالشٹاٹ کے درمیان آخری رکاوٹ تھی۔ کوچ سرنگ میں داخل ہوئی، اور چند منٹ بعد جب ہماری کوچ اس سرنگ کے دوسری جانب نکلی، تو ایک دلکش منظر ہمارا منتظر تھا—نیلگوں جھیل کے کنارے واقع ایک تاریخی قصبہ: ہالشٹاٹ۔
کوچ قصبے کے مرکزی بس اسٹیشن پر اپنے مقررہ مقام پر جا کر پارک ہو گئی۔ ٹاشا نے ہمیں اس دلکش قصبے کی سیر اور لنچ کر کے ٹھیک ڈھائی گھنٹے بعد کوچ میں واپس آ جانے کی ہدایت کی۔
ہم باری باری نیچے اترنے لگے۔۔۔۔۔
جاری ہے