سورین کیرکگارڈ ڈینش فلسفی اور ماہر الہیات جو انیسویں صدی میں قیام پذیر تھا۔ وہ وجود کی نوعیت، انسانی تجربے اور ایمان پر اپنے گہرے غوروفکر کے لیے جانا جاتا ہے۔ کیرکگارڈ کا فلسفیانہ کام ایک غیر یقینی اور پیچیدہ دنیا میں معنی تلاش کرنے اور صحیح انتخاب کرنے کے لیے فرد کی جدوجہد پر مرکوز ہے۔
اس کا مشہور قول ہے، “زندگی کو ماضی کی مدد سے سمجھنا چاہیے۔ لیکن جینا حال میں اور مستقبل کے لیے چاہیے،” یہ قول اس کے کلیدی فلسفیانہ خیالات کی درست وضاحت کرتا ہے۔ یہ تجویز کرتا ہے کہ اگرچہ ہم اپنے ماضی کے تجربات کو پیچھے مڑ کر دیکھنے اور ان پر غور کرنے سے ہی اپنی زندگی کے معنی اور اہمیت کو صحیح معنوں میں سمجھ سکتے ہیں، لیکن ہمیں پھر بھی آگے بڑھنا چاہیے اور موجودہ لمحے میں اپنی زندگی گزارنی چاہیے۔
کیرکگارڈ کا خیال تھا کہ حقیقی سمجھ ہمارے ماضی کے اعمال، تجربات اور فیصلوں پر غور کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پیچھے مڑ کر اور اپنے سفر کا تجزیہ کرنے سے، ہم اپنے اور اپنے آس پاس کی دنیا کے بارے میں بصیرت حاصل کرتے ہیں۔ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ سکتے ہیں، حقیقت کو پہچان سکتے ہیں اور فرد کے طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔
تاہم، کیرکگارڈ نے حال میں رہنے اور مستقبل کو گلے لگانے کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ ہم صرف ماضی پر انحصار نہیں کر سکتے۔ نہ ہی غور و فکر کے چکر میں ہمیشہ پھنسے رہ سکتے ہیں۔ زندگی آگے بڑھتی ہے، اور ہمیں اس کے ساتھ فعال طور پر شامل حال ہونا چاہیے۔ ہمیں مستقبل کے لیے دانشمندانہ انتخاب کرنا چاہیے، خطرات مول لینا چاہیے اور نئی صورتحال کا تجربہ کرنا چاہیے۔ بھرپور زندگی فعال طور پر حصہ لینے اور نئے راستوں کو تشکیل دینے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔
نوجوان قارئین کے لیے، یہ قول زندگی کے لیے ایک متوازن نقطہ نظر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ ہمیں اپنے ماضی سے سیکھنے کی یاد دہانی کرواتا ہے، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ اس میں قیمتی اسباق ہیں، لیکن یہ بھی کہتا ہے کہ محض پچھتاوے یا پرانی یادوں میں نہ پھنس کر رہ جائیں۔ بلکہ اس کے بجائے، ہمیں حال میں مستند طریقے سے زندگی گزارنے، خطرات مول لینے، اپنے جذبوں کا تعاقب کرنے اور ایک بامعنی مستقبل بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ قول ہمیں اپنے تجربات پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور آگے آنے والے امکانات اور غیر یقینی صورتحال کو قبول کرنے کا حوصلہ بخشتا ہے