Skip to content
Home » Blog » امیر مینائی:شاعری کا درخشاں ستارہ

امیر مینائی:شاعری کا درخشاں ستارہ

  • by

امیر مینائی: اردو شاعری کا
درخشاں ستارہ

تحقیق و تدوین

شارق علی
ویلیو ورسٹی

اردو شاعری کے کلاسیکی دور میں جتنے بھی نامور شاعر گزرے ہیں، ان میں امیر مینائی کا نام ایک ایسے درخشاں ستارے کی طرح چمکتا ہے، جن کی شاعری نے نہ صرف اپنے زمانے کو متاثر کیا بلکہ آج بھی ان کے اشعار اردو زبان کی رونق اور شان ہیں۔ ان کی شاعری میں جہاں حسن و عشق کی نزاکتیں ہیں، وہیں فلسفہ اور صوفیانہ رموز کی گہرائی بھی ہے۔ ان کے اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں اور اردو زبان میں عام بول چال کا حصہ ہیں۔

حالاتِ زندگی:

امیر مینائی 21 فروری 1829ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام امیر احمد تھا اور وہ مخدوم شاہ مینا کے معزز خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت لکھنؤ کے مشہور علمی مرکز “فرنگی محل” کے جید علما کے زیر سایہ ہوئی۔ یہیں سے انہوں نے عربی، فارسی، اور دینی علوم میں مہارت حاصل کی۔ شاعری میں انہوں نے اسیر لکھنوی جیسے استاد سے تربیت پائی، جو ان کے فن کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔

1852ء میں نواب واجد علی شاہ کے دربار میں انہیں پذیرائی ملی، لیکن 1857ء کے ہنگامے کے بعد لکھنؤ کی سیاسی اور سماجی صورت حال بدل گئی۔ اس کے بعد امیر مینائی رامپور چلے گئے، جہاں نواب کلب علی خان نے انہیں اپنے دربار میں استاد مقرر کیا۔ رامپور میں انہوں نے اپنی شاعری کو مزید عروج بخشا اور وہاں کے علمی و ادبی ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بعد ازاں، 1900ء میں وہ حیدرآباد دکن چلے گئے، جہاں کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد 13 اکتوبر 1900ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔

شاعری کا فن:

امیر مینائی کی شاعری میں محبت، فلسفہ، صوفیانہ رموز، اور عصری مسائل کی جھلک ملتی ہے۔ ان کے اشعار میں سوز و گداز، درد و الم، اور عشق و محبت کی کیفیات بہت خوبصورتی سے بیان ہوئی ہیں۔ ان کا اندازِ سخن سادہ مگر پر تاثیر ہے، جو قاری کے دل کو چھو لیتا ہے۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی رچاؤ اور جدیدیت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔

ان کے دو شعری مجموعے “مراۃ الغیب” اور “صنم خانہ عشق” شائع ہوئے، جو اردو شاعری کے خزانے میں اہم اضافہ ہیں۔ نیز، انہوں نے ایک لغت “امیر اللغات” بھی تصنیف کی، جو اردو زبان کے لیے ایک اہم علمی خدمت تھی، لیکن یہ نا مکمل رہی۔

چند منتخب اشعار:

امیر مینائی کے اشعار ان کے فکر و فن کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے چند مشہور اشعار درج ذیل ہیں۔ اتنے شعر کم ہی شاعروں کے مشہور ہوئے

خنجر چلے کسی پہ، تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

گاہے گاہے کی ملاقات ھی اچھی ہے امیر
قدر کھو دیتا ھے ھر روز کا آنا جانا

کسی رئیس کی محفل کا ذکر ہی کیا ہے
خدا کے گھر بھی نہ جائیں گے بن بلائے ہوئے

قریب ہے یارو روزِ محشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر
جو چپ رھے گی زبانِ خنجر ، لہو پکارے گا آستین کا

زیست کا اعتبار کیا ہے امیر
آدمی بلبلہ ہے پانی کا

خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرع تر کی صورت

ہوئے نام ور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

وائے قسمت، وہ بھی کہتے ہیں برا
ہم برے سب سے ہوئے جن کے لیے

آہوں سے سوزِ عشق مٹایا نہ جائے گا

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں

میں شاد ہوں کہ ہوں تو کسی کی نگاہ میں

تیر پہ تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے

سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے

آنکھیں دکھلاتے ہو، جوبن تو دکھاؤ صاحب

وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے

تجھ کو آتا ھے پیار پر غصہ

مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے

وصل کا دن اور اتنا مختصر

دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں

پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے

امیر جمع ہیں احباب، درد دل کہ لے

پھر التفات دل دوستاں رہے نہ رہے

خون ناحق کہیں چھپتا ہے چھپائے سے امیر

کیوں مری لاش پہ بیٹھے ہیں وہ چادر ڈالے

دل بری سے کام ہے ہم کو، دل آزاری سے کیا

یار کی یاری سے مطلب، اس کی عیاری سے کیا

ہے آج جو سرگزشت اپنی

کل اس کی کہانیاں بنیں گی

اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے

ہم مرے جاتے ھیں تم کہتے ھو حال اچھا ہے

امیر اب ہچکیاں آنے لگی ہیں

کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں

کون سی جا ہے جہاں جلوہ معشوق نہیں

شوق دیدار اگر ہے تو نظر پیدا کر

لطف آنے لگا جفاؤں میں

وہ کہیں مہرباں نہ ہو جائے

شاعر کو مست کرتی ھے تعریفِ شعر امیر

سو بوتلوں کا نشہ ھے اس واہ واہ میں

تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر

سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر

تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے

سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ھے

وصل ھو جائے یہیں حشر میں کیا رکھا ہے

آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے

گرہ سے کچھ نہیں جاتا ہے، پی بھی لے زاہد

ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں

سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ

نکلتا آرہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کرلیا پردہ

حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ

ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار

سادگی گہنا ہے اس سن کے لیے

باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی

بھیجنا ہے ایک کم سن کے لیے

کباب سیخ ہیں ہم، کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں

جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

مرغان باغ ، تم کو مبارک ہو سیر گل

کانٹا تھا ایک میں، سو چمن سے نکل گیا

شاعری کا اثر:

امیر مینائی کی شاعری نے نہ صرف اپنے زمانے کے لوگوں کو متاثر کیا بلکہ بعد کے شعراء پر بھی ان کے کلام کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ان کی شاعری میں جو سادگی اور گہرائی ہے، وہ انہیں اردو شاعری کا ایک ممتاز شاعر بناتی ہے۔ ان کے اشعار آج بھی اردو ادب کی محفلوں میں زندہ و جاوید ہیں۔

نثری خدمات:

امیر مینائی صرف شاعر ہی نہیں تھے، بلکہ وہ ایک اچھے نثر نگار اور عالم بھی تھے۔ انہوں نے اردو زبان کی خدمت کے لیے “امیر اللغات” جیسی اہم لغت تصنیف کی، جو اگرچہ نا مکمل رہی، لیکن اس کا مقصد اردو زبان کو ایک مستند لغت فراہم کرنا تھا۔

آخری ایام:

امیر مینائی نے اپنی زندگی کے آخری ایام حیدرآباد دکن میں گزارے۔ وہاں انہیں کچھ عرصہ تک بیماری نے گھیرے رکھا، لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری کی شمع روشن رہی۔ 13 اکتوبر 1900ء کو ان کا انتقال ہوا، لیکن ان کا کلام آج بھی زندہ ہے اور اردو ادب کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

اختتامیہ

امیر مینائی اردو شاعری کے ایک ایسے ستارے تھے، جن کی روشنی آج بھی کم نہیں ہوئی۔ ان کی شاعری میں جہاں حسن و عشق کی نزاکتیں ہیں، وہیں فلسفہ اور صوفیانہ رموز کی گہرائی بھی ہے۔ ان کے اشعار آج بھی اردو زبان کی رونق اور شان ہیں۔ ان کی زندگی اور فن ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ شاعری محض الفاظ کا جادو نہیں، بلکہ یہ دل کی زبان ہے، جو ہر دور میں زندہ رہتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *