امن ہو
شارق علی
ویلیو ورسٹی
خط بنام شنکر ہندوستانی
از طرف: شارق پاکستانی
(دہلی کے خدوخال لیے لاہور کی گلیوں سے)
بتاریخ: ماہِ مئی، سنہ دو ہزار پچیس
برادرم شنکر ہندوستانی،
تسلیماتِ بے پایاں!
تمنا ہے کہ تمہارا حال بخیر و عافیت ہو۔ اگرچہ تم سے بالمشافہ ملاقات اب تک نصیب نہ ہو سکی، مگر دل کی دیواروں پر تمہاری صورت یوں نقش ہے، جیسے چاندنی رات میں مسجد کی چھت پر پڑتا بت نما سایۂ سرو۔
برخوردار!
یہ خط درحقیقت ایک دستک ہے، جو میں نے تمہارے دل کے دروازے پر دینے کی جسارت کی ہے۔
مقصد فقط یہ ہے کہ ہم کچھ دیر ہی کو سہی، اپنے دامنِ دل سے نفرت کے کانٹے نکال دیں، اور دل و ذہن کی مٹی میں محبت کے گلابوں کی آبیاری کریں۔
شنکر بھیا!
ہم نے اور تم نے تاریخ کے میدان میں کئی جنگوں کا رقصِ خوں دیکھ لیا۔ سن پینسٹھ کی گرجتی توپیں، اکہتر کے گرتے بم، سرحدوں پر گرجتے جہاز، سینوں پر سجتے تمغے، اور بہادری کے دعوے۔
مگر تم سچ کہو۔ کیا ان معرکوں سے کسی ماں کا شہید بیٹا لوٹ سکا؟
کسی بیوہ کا آنگن آباد ہوا؟
کسی یتیم کے آنسو پونچھے گئے؟
کسی مزدور کی بھوک مٹی؟
نہیں، بھائی شنکر، نہیں۔
جنگ صرف تباہی ہے۔
ایک ایسی عفریت جو ہمارے بیٹے نگل جاتی ہے۔
لہٰذا، میں اور تم،
جو سندھو اور گنگا جمنی تہذیب کے بیٹے ہیں،
ایک مہذب تاریخ کے وارث ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم امن کو ایک موقع دیں۔
تمہارے بنارس کی ساڑھیاں، ہمارے ملتان کا کھدر؛
تمہاری جاتک اور کتھا کہانیاں، ہمارے فیض و فراز کی غزلیں؛
تمہارے مندروں کی سریلی گھنٹیاں، ہمارے مزاروں پر گونجتی قوالیاں۔
کیا یہ سب اس بات کا کھلا اعلان نہیں کہ ہماری روح میں ایک ہی مٹی کی خوشبو بسی ہوی ہے؟
شنکر! میری مانو!
آؤ اب ہم جنگوں کے بجائے خوشی کا جشن منائیں۔
لاہور میں تمہارے کتھک ناچ کا جشن ہو،
بنارس میں ہماری قوالی گونجے۔
تمہاری گنگا کا پانی ہمارے چناب سے گلے ملے۔
بچے رنگ برنگی پتنگیں اڑائیں،
عورتیں ہنسی خوشی باتیں کریں، ٹپے سنایں،
اور مرد گرم جوشی سے ہاتھ ملائیں، کبڈی کھیلیں۔
یاد ہے تب بھی ہم ساتھ تھے،
جب پریم چند نے انسانیت کا عَلَم سنبھالا،
گاندھی نے سچائی کا چراغ روشن کیا،
اور غالب نے خوابوں کو پرواز دی؟
آؤ، ہم اور تم،
دونوں وارث بنیں، محبت کی مشترکہ میراث کے۔
میں نے یہ خط اس امید پر لکھا ہے
کہ ہماری سوچ کے دریچوں میں
روشنی کی کوئی کرن اس صبح کا آغاز کرے،
جس کا ہمیں برسوں سے انتظار ہے۔
مصروف ہو تب بھی جواب دو۔
بس اتنا لکھ دو
“امن ہو”
اور یہ بہت کافی ہوگا۔
والسلام مع الاکرام،
تمہارا خیراندیش،
شارق پاکستانی