امن کی خاموش آرزو
شارق علی
ویلیو ورسٹی
برصغیر کے موجودہ حالات کئی پہلوؤں سے نہایت حیران کن اور غور طلب ہیں۔ ایک طرف ریاستی بیانیہ اور ذرائع ابلاغ مسلسل جنگ و جدل کی فضا کو گہرا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، تو دوسری طرف عوام الناس کا طرزِ عمل بالکل مختلف، بلکہ کسی حد تک بیداری کا مظہر بن چکا ہے۔ جہاں طاقتور ایوانوں میں نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں، وہیں عام انسان دلوں کے درمیان پل باندھنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
یہ وہ عوام ہیں جنہوں نے دشمنی کی دھند میں بھی حسِ مزاح کے چراغ روشن کیے ہیں۔ ظرافت و مزاح، مشترکہ زبان و ثقافت، ادب، موسیقی اور فلمیں — یہ سب آج بھی سرحدوں کے آر پار دلوں کو جوڑنے کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔
یہ رجحان نہ صرف امید افزا ہے، بلکہ اس خطے کی آئندہ خوشحالی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ لمحہ اہلِ اختیار کے لیے سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔ اگر حکمران اور میڈیا اس عوامی شعور سے سبق حاصل کریں، تو نفرت کے بیانیے کو خیرباد کہہ کر امن کی طرف لوٹنا ممکن ہو سکتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو، تو کم از کم اس روش پر شرمندگی کا احساس ہی ایک مثبت آغاز بن سکتا ہے۔
دونوں ملکوں کی حکومتوں کو چاہیے کہ شدت پسندی کی ہر شکل سے لاتعلقی اختیار کریں اور اپنے سیاسی مفادات کو انسانیت کے وسیع تر مفاد پر قربان کر دیں۔
عوام کو بھی یہ شعور حاصل ہونا چاہیے کہ نفرت کے سوداگر ان کے اصل دشمن ہیں — نہ کہ وہ لوگ جو سرحد کے اُس پار بستے ہیں۔ بلکہ وہ تو اپنی آرزوؤں اور امنگوں میں ہم جیسے ہی ہیں۔ شدت پسندی کے ہر مکروہ چہرے کو قابلِ نفرت جانیے، اور جتنی جلدی ممکن ہو، اس قابلِ نفرت گروہ کے چنگل سے خود کو آزاد کیجیے۔
جب تک ہم اجتماعی طور پر نفرت کی سیاست کو رد نہیں کریں گے، تب تک امن ایک خواب ہی رہے گا۔ مگر خوابوں کی تعبیر انہی کو ملتی ہے جو جاگتے ہیں، سوچتے ہیں، اور دل سے چاہتے ہیں۔