اس دِن اس برفیلی تیز ہوا کے سامنے
مجید امجد
اس دِن اس برفیلی تیز ہوا کے سامنے میں کچھ پہلے سے بھی زیادہ بوڑھا بوڑھا سا لگتا تھا
شاید واقعی اتنے ترس کے قابل ہی تھا
اس دن تم نے مجھ سے کہا تھا
اک دن میرے لیے تم اس دنیا کو بدل دو گی، یہ تم نے کہا تھا
اس دن بھری سڑک پر تم نے پیڈل روک کے۔۔۔
اپنے بائیسکل کو میرے بائیسکل کے ساتھ ساتھ چلا کر، مجھ سے کہا تھا:
’’آپ ایسے لوگوں کو بھی روز یہاں پتھر ڈھونے پڑتے ہیں، روٹی کے ٹکڑے کی خاطر‘‘
تھوڑی دور تک بھری سڑک پر، دو پہیوں کے ساتھ وہ دو پہیے ڈولے تھے
دندانوں میں ٹک ٹک کتے بولے تھے، سب دنیا نے دیکھا تھا
اور اس دن میں نے اپنے دل میں سوچا تھا
’’کیسا شہر ہے یہ بھی، ایسی ایسی باغی روحیں بھی اس میں بستی ہیں۔۔۔‘‘
میں تو اسی تمھارے شہر میں اب بھی روز اک میز پہ پتھر ڈھونے جاتا ہوں
کاغذ کے پتھر
لیکن جانے تم اب کہاں ہو، اے ری گول مٹول، سیانی گڑیا
بیٹی! شاید تو تو کہیں کسی دہلیز پہ دو منقوط گلابی گال آنکھوں سے لگا کر
نئی سفید جرابوں والے کسی کے ننھے سے پیروں میں گرگابی کے تسمے کسنے بیٹھ گئیں
اور یہاں، ادھر اب، ساتھ ساتھ جڑے ہوئے میزوں کی ایک لمبی پٹڑی بچھ بھی چکی ہے
حدِ زمیں تک
ظلم کے ٹھیلے روز اس پٹڑی پر بےبس زندگیوں کو دور افق کے گڑھے میں ڈھونے
آتے ہیں!
اور میں، اب بھی تمھارے کہے پر، اس پٹڑی کے اک تختے پر
عمروں کی گنتی کے چھٹے دہے پر
اس دنیا کا رستہ دیکھ رہا ہوں جس میں تمھارے نازک دل کی
مقدس سچائی کا حوالہ بھی تھا
جانے پھر تم کب گزرو گی ادھر سے … اس دنیا کو ساتھ لیے…
مجید امجد