اسکندریہ کی ہائپیشیا
شارق علی
ویلیوورسٹی
اسکندریہ کے عظیم کتب خانے کے قیام کے تقریباً چھ سو سال بعد، اس قدیم شہر کی گلیوں میں علم کا ایک روشن ستارہ نمودار ہوا، جس کا نام تھا ہائپیشیا۔ وہ ایک عظیم فلسفی اور ریاضی دان تھی۔ یہ چوتھی صدی عیسوی کا زمانہ تھا، جب اسکندریہ دنیا کے علم و فن کا مرکز مانا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے، یہ وہ دور بھی تھا جب مذہبی تنازعات کی آگ بھڑک رہی تھی اور شدت پسند عناصر کو ویسی ہی طاقت حاصل تھی جیسی آج کل ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہائپیشیا اس مشکل دور میں بھی علم کی روشنی پھیلانے میں مصروف تھی۔
ہائپیشیا کی ذہانت اور علم کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اگرچہ وہ ایک غیر عیسائی خاتون تھی، پھر بھی وہ ایک ایسے معاشرے میں اپنی نمایاں حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی جو پدرسری نظام کے زیر اثر تھا اور جہاں ہر جانب مردانہ غلبہ نمایاں تھا۔ ہائپیشیا نے نہ صرف اپنے طلبا کو علم سے متاثر کیا بلکہ اسکندریہ کے گورنر اوریسٹس کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم کیے۔ اوریسٹس بھی ہائپیشیا کی طرح چرچ کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف تھا۔ اس تعلق اور ہائپیشیا کے علم اور آزادیٔ اظہار کے جذبے نے اسے اپنے مخالفین کے غیض و غضب کا نشانہ بنا دیا۔
415ء کا سال ہائپیشیا کی زندگی کا آخری باب ثابت ہوا۔ مذہبی شدت پسندی سے بھرپور معاشرے میں پیٹر دی لیکٹر نامی ایک مذہبی جنونی عیسائی کے زیر قیادت ایک مشتعل ہجوم نے اس عظیم دانشور کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ اس کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور وہ بے پناہ تشدد کا نشانہ بنی، یہاں تک کہ ایک چرچ کے اندر اس کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔
ہائپیشیا کی اس المناک موت کے ساتھ ہی اسکندریہ کا علمی مرکز بھی زوال پذیر ہو گیا۔ خوف و ہراس نے اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ایک ایک کر کے علماء و فنکار اس شہر کو چھوڑنے لگے۔ نتیجتاً، معاشرہ تیزی سے زوال کی طرف بڑھنے لگا۔
ہائپیشیا کی کہانی وقت کے ساتھ ساتھ ایک سبق آموز علامت بن گئی۔ علم کے فروغ کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں، چاہے وہ مذہبی ہوں یا معاشرتی، کتنے خطرناک نتائج برآمد کر سکتی ہیں، اس بات کا اندازہ اس کہانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ فکری آزادی اور اس کے اظہار کا تحفظ کرنا، اور کسی معاشرے میں مختلف عقائد کا احترام کرنا کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔ نیز یہ کہ سچائی کی تلاش میں کبھی بھی حکمت اور جرات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے، خاص طور پر جب حالات مشکل اور ناسازگار ہوں۔
ہائپیشیا آج بھی ظلم و جبر کے خلاف آزادیٔ فکر کی ایک مضبوط علامت ہے۔ اس کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ علم کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی اور سچائی کی جستجو کبھی ہمت نہیں ہارتی۔